بلوچستان

پاکستان کی مہنگی اشیا نہیں خرید سکتے، ایران سے سرحدی تجارت کھولی جائے، ماشکیل دھرنا مظاہرین


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)مہنگے آٹے سمیت اشیائے خوردونوش کی فراہمی کے خلاف بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کا جمعے کے روز سے شروع ہونے والا احتجاجی دھرنا کوئٹہ پریس کلب کے باہر جاری ہے۔یاد رہے کہ ایران سے متصل سرحدی علاقے ماشکیل سے تعلق رکھنے والے افراد 700 کلومیٹر طویل پیدل لانگ مارچ کر کے کوئٹہ پہنچے تھے اور تب سے ہی مطالبات کی منظوری کے لیے کیمپ قائم کر کے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔دھرنے کے شرکا نے ایران سے خوراکی اشیا کے حصول کے لیے مزہ سر کراسنگ پوائنٹ کو دوبارہ کھولنے کے مطالبات سمیت حکومت کو سات مطالبات پیش کیے ہیں ۔ماشکیل کے انجمن تاجران کے رہنما کبیراحمد ریکی نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ و قبائلی امور بلوچستان سے پیر کے روز مذاکرات کے بعد کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا کیمپ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ ماشکیل کے لوگوں کو 40 کلو ایرانی آٹا ساڑھے تین ہزار روپے مل سکتا ہے تو پھر انھیں کیوں اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ 40 کلو آٹا آٹھ سے 10 ہزار روپے میں خریدیں۔دھرنے میں شریک جیند بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر ایران سے ماشکیل کے لوگوں کو خوراک کی اشیا لانے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہاں کے لوگ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آنے والی مہنگی اشیا خرید نہیں سکیں گے کیونکہ غربت کی وجہ سے ان میں مہنگی اشیا خریدنے کی سکت نہیں ہے۔ڈپٹی کمشنر واشک نعیم عمرانی کا کہنا ہے کہ چونکہ بارڈر کا معاملہ وفاقی حکومت سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے محکمہ داخلہ بلوچستان کو اس معاملے کو وفاقی حکومت سے اٹھانے کے لیے مراسلہ بھیج دیا گیا ہے۔طویل لانگ مارچ کی وجوہات کے بارے میں جنید بلوچ نے بتایا کہ بارشوں اور سیلاب کی صورت میں نوکنڈی کے راستے ماشکیل کا راستہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے منقطع ہوجاتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس راستے کی بندش کے بعد جو متبادل راستہ ہے وہ نہ صرف بہت زیادہ طویل ہے بلکہ محفوظ بھی نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ماشکیل کے لوگوں نے حکام سے یہ مطالبہ کیا کہ ایران سے متصل مزہ سر کراسنگ پوائنٹ کو کھولا جائے تاکہ وہ ایران سے سستے داموں بنیادی اشیا صرف خرید سکیں۔واضح رہے کہ اس کراسنگ پوائنٹ سے پہلے قانونی طور پر تجارت ہوتی تھی تاہم کورونا کی وبا کے دوران اسے بند کیا گیا جو تاحال نہ کھل سکی۔’اس کرسنگ پوائنٹ کو کھلوانے کے لیے ایک ماہ سے زیادہ لوگوں نے احتجاج کیا لیکن اس کے باوجود اسے نہیں کھولا گیا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر مکمل طور پر نہیں کھولا جاتا تو کم ازکم چند دن کے لیے کھولا جائے تاکہ لوگ ایران سے خوراکی اشیا حاصل کرسکیں مگر لوگوں کے اس مطالبے کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ حال ہی طوفانی بارشوں کے باعث ہامون کے علاقے میں سیلابی پانی آنے سے ماشکیل کا مختصر ترین راستہ پھر بند ہوگیا جس سے اشیا خورد و نوش کی شدید قلت پیدا ہوگئی اور ان کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوگئیں۔ماشکیل کا شمار بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے ۔لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکا نے حکومت کو سات مطالبات پیش کیے ہیں جن مزہ سر کراسنگ پوائنٹ کے علاوہ پانچ سال سے بند زیرو پوائنٹ کو دوبارہ کھولنے کے مطالبات سر فہرست ہیں۔دیگر مطالبات میں قانونی گزرگاہ گیٹ سے اتوار کی چھٹی کا خاتمہ، نوکنڈی سے ماشکیل تک شاہراہ کی تعمیر کے کام کو تیز کرنے، ماشکیل سول ہسپتال میں عملے کی موجودگی کو یقینی بنانے ، ماشکیل شہر میں بند 27 تعلیمی اداروں کی فوری بحالی اور ماشکیل شہر میں منشیات فروشی میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کے مطالبات شامل ہیں۔دوسری جانب ماشکیل میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے یہ سفارش کی گئی ہے کہ ماشکیل کی آبادی کے لیے ایرانی اشیا کی سستے داموں حصول کو یقینی بنانے کہ مزہ سر کراسنگ پوائنٹ کو کھولا جائے اور اس کو مستقل طور پر کھولنے میں اگر کوئی بہت بڑا مسئلہ ہے تو کم از کم اسے ایسے مواقع پر کھولا جائے جب سیلاب کی وجہ سے ماشکیل کا مختصر ترین راستہ بند ہوجاتا ہے۔

متعلقہ خبریں