لاکھوں اور کروڑوں مالیت والے بیل اور بکروں میں خاص کیا ہے، قربانی کرنے والے کون ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان ہر سال سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے عید الاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، قربانی کے لیے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت اور اچھا جانور اللّٰہ کی راہ میں قربان کرے۔ پاکستان میں بھی ہر سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر لوگ خوبصورت، بھاری بھرکم، اور نایاب نسل کے جانور قربان کرتے ہیں۔ چونکہ عیدالضحیٰ پر خوبصورت اور تگڑے جانور کی قربانی کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے، اس لیے اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے کئی غریب کسانوں کے ساتھ ساتھ امیر لوگوں نے اپنے اپنے کیٹل فارم بھی بنا لیے ہیں جن میں وہ سارا سال جانور پالتے ہیں اور پھر عید سے قبل فروخت کر دیتے ہیں، یہ بھی ایک باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال عید پر بہت بڑی تعداد میں خوبصورت، بھاری بھرکم اور اچھی نسل کے بکرے اور بیل قربان کیے گئے، ویسے تو ملک بھر میں لوگ خوبصورت اور مہنگے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، تاہم کراچی میں یہ رجحان کچھ زیادہ ہے، کراچی میں گزشتہ 2سالوں سے ایسے بھی لوگ سامنے آئے ہیں کہ جنہوں نے ایک کروڑ یا اس سے زیادہ مالیت کا بیل خرید کر قربان کیا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’شوق کا کوئی مُل نہیں ہوتا‘، اب یہ شوق اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ راولپنڈی اور لاہور میں بھی ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو کروڑوں کی قربانی کرتے ہیں۔
عید الاضحی کے لیے جانور تیار کرنے والے کیٹل فارم اور جانور خریدنے والوں سے گفتگو کی ہے اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ 5لاکھ سے 1 کروڑ مالیت والے وی آئی پی قربانی کے بیل اور بکروں میں کیا خاص بات ہوتی ہے؟ اور ایسے جانور کون لوگ خریدتے ہیں؟ اتنی بھاری قیمت کی کیا وجوہات ہیں۔
راولپنڈی کے کیٹل فارمز میں بیلوں کی کیا قیمت ہے؟
راولپنڈی میں بھی مہنگے جانور پالنے کا شوق بڑھ گیا ہے، اس وقت بھی متعدد ایسے کیٹل فارم ہیں جہاں پر بیلوں کی قیمت 15 لاکھ سے 1 کروڑ روپے تک ہے، تاہم کراچی کے برعکس یہاں بھاری مالیت کے بیلوں کی خریداری کرنے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

راولپنڈی کے مشہور فرخ کیٹل کے مالک فرخ شاہد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قربانی انسان اللّٰہ کے لیے کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت ترین چیز اللّٰہ کی راہ میں قربان کرے، اس وقت کراچی جیسا شوق راولپنڈی اسلام آباد میں ہو رہا ہے اور کراچی سے مہنگے بیل یہاں فروخت ہو رہے ہیں، جبکہ کراچی والے بھی جانور خریدنے کے لیے رابطہ کر رہے ہیں۔
فرخ شاہد نے کہا کہ جس طرح 30 لاکھ کی ہنڈا سوک گاڑی چند سالوں میں 1 کروڑ تک پہنچ گئی ہے، اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں اسی طرح جانوروں کی قیمت او جانوروں پر آنے والا خرچ بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے، راولپنڈی اسلام آباد میں زیادہ تر فتح جنگی نسل کے بیلوں کا شوق کیا جاتا ہے، اس نسل کے بیل اپنی خوبصورتی اور نخرے کے باعث بہت مہنگے ہوتے ہیں، یہ بیل وزن میں کم لیکن نخرے میں اتنے کمال ہوتے ہیں کہ ایک بیل کو سنبھالنے کے لیے 2 سے 3 بندے چاہیے ہوتے ہیں۔
ایک بیل پر سالانہ کتنا خرچہ آتا ہے؟
فرخ شاہد کے مطابق جانوروں کو تقریباً 2سال پالا جاتا ہے اور اس میں ان کو 4 ہزار روپے من والی گندم، 8 ہزار روپے من والا کالا چنا، مکئی، چوکر، سردیوں میں گھی، تیل اور دیگر اشیاء کھلائی جاتی ہیں، ایک بیل پر سالانہ 5 سے 6 لاکھ روپے خرچ آتا ہے، جبکہ چھوٹا سا بچہ بھی کسان سے مہنگا خریدنا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ بیل انتہائی قیمتی ہوتے ہیں، اور اگر بیل اچھا تیار ہو جائے تو آپ کو اپنی مرضی کے پیسے دے کر لوگ بیل خرید لیتے ہیں۔

کروڑوں کا بیل کون خریدتا ہے کہ سوال کے جواب میں فرخ شاہد نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہم پالنے والے لوگ ہی مہنگا بیل خریدتے ہیں، اس سال بھی میں نے 2 کروڑ روپے کا بیل خریدا ہے پالنے کے لیے جو کہ سال 2025 میں قربان ہوگا، جب اچھا خوبصورت جانور تیار ہوتا ہے لوگ آپ کے پیچھے پیچھے آتے ہیں اور آپ سے بیل خریدنے کے لیے بھاری رقم ادا کرتے ہیں، خریداروں میں زیادہ معروف شخصیات تو نہیں ہوتی تاہم شیخ برادری، پراچہ برادری، چوہدری برادری، ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان اور کچھ راجہ بازار کے بڑے تاجر اور بعض بیرون ملک مقیم پاکستانی ہم سے خریداری کرتے ہیں، اس کے علاؤہ بعض سیاستدانوں نے بھی بیل خریدا ہے تاہم انہوں نے نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔
بکرے پر بیل جتنا خرچ آتا ہے؟
پنجاب کے علاقے رحیم یار خان میں بھاری بھرکم لاکھوں روپے مالیت کے بکرے تیار کرکے ملک بھر میں فروخت کرنے والے عمران مغل نے وی نیوز کو بتایا کہ بکروں کا شوق بیلوں سے بھی زیادہ ہے، لیکن بکروں کی زیادہ سے زیادہ قیمت ابھی 30 لاکھ سے کم کم ہے، لیکن بکرے پر محنت ایک بیل سے بھی زیادہ ہے اور خرچ بیل جتنا ہی ہے۔ اچھی نسل کا بکرا پالنا بھی بہت مشکل ہے چونکہ بھاری بھرکم بکروں میں مرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔

عمران مغل کے مطابق ہر سال بکرا عید سے چند دن قبل فیصل آباد میں بکروں کا بڑا مقابلہ ہوتا ہے، اس مقابلے میں ملک بھر سے بکرے لائے جاتے ہیں، ان بکروں کو 2، 2 سال پالا جاتا ہے، صبح شام 2، 2کلو دودھ پلایا جاتا ہے، اور ماہانہ 50 سے 60 ہزار روپے تک خرچ کیا جاتا ہے، مقابلے کے لیے اگر کوئی شخص 20 بکرے تیار کرتا ہے تو 10 بکرے تیاری کے دوران ہی مرجاتے ہیں، لیکن جب بکرا تیار ہو جاتا ہے تو وہ 20 سے 30 لاکھ روپے میں فروخت ہوتا ہے اور ملک بھر سے لوگ اس کے خریدار ہوتے ہیں۔

کراچی میں نور کیٹل فارم کے مالک فہیم اوپل نے بتایا کہ بکرا عید ایک تہوار کی طور پر منائی جاتی ہے، پاکستان میں ویسے بھی خوشیاں منانے کے مواقع کم ہوتے ہیں تو لوگ عید الاضحیٰ جیسے مواقع پر خوب شوق کرتے ہیں اور دل کھول کر خوبصورت سے خوبصورت جانور خرید کر اللّٰہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ عید الاضحی کا سیزن کراچی میں ایک ماہ سے زائد تک رہتا ہے، ہر گلی محلے میں صرف خوبصورت اور بھاری بھرکم بیلوں کی گونج ہوتی ہے۔
کراچی میں قربانی کے جانوروں کی قیمتیں کہاں تک پہنچ گئیں؟
فہیم اوپل نے کہا کہ کراچی میں جانوروں کی قیمتیں 50 لاکھ سے ایک کروڑ سے زائد اس لیے ہو گئی ہیں کہ ایک جانور کو پالنے پر سالانہ 6 سے 8 لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے، اس میں جانور کو روزانہ 4 کلو تک دودھ دیا جاتا ہے، اچھے سے اچھی خوراک دیسی خوراک کھلاتے ہیں، پھر ایک بھاری بھرکم جانور کو تیار کرنے کے لیے اس کی تین سے چار سال خدمت کرنا ہوتی ہے، اور سب سے زیادہ رقم جانور کی خریداری پر خرچ ہوتی ہے، نسل میں اچھے ہوں تو وہ 6 ماہ سے ایک سال کا بچہ بھی 20 لاکھ روپے کا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک بیل کی قیمت 50 لاکھ سے ایک کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔

فہیم اوپل نے کہا کہ قربانی کا شوق تو اب اس میعار کو پہنچ گیا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں بس ہماری مرضی کا خوبصورت ترین، اور بھاری بھرکم جانور مل جائے چاہے اس کی قیمت ایک کروڑ ہی کیوں نہ ہو، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک اچھے جانور کے ایک سے زیادہ گاہک ہوتے ہیں جو ایک کروڑ یا اس سے بھی زیادہ رقم بھرنے کو تیار ہوتے ہیں، کراچی میں سیٹھ، مل اونر، بڑے کاروباری شخصیات سمیت چھوٹے تاجر بھی بڑی اور مہنگی قربانیاں کیا کرتے ہیں۔