یورپ پہنچنے کی خواہش سے وابستہ ہولناک خطرات، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر سال ہزاروں لوگ اپنی جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے افریقی ممالک سے سے یورپ کا رخ کرتے ہیں تو انہیں فوری مدد، پناہ یا راستے میں درپیش ممکنہ خطرات کا کوئی علم نہیں ہوتا جبکہ بیشتر انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 10 کروڑ 84 لاکھ افراد نقل مکانی کر کے دیگر ممالک میں پناہ گزین ہیں، جن میں 76 فیصد لوگوں کو متوسط اور کم درجے کی آمدنی والے ممالک نے پناہ دے رکھی ہے۔
عالمی ادارہ مہاجرت نے بتایا ہے کہ اس وقت مزید 28 کروڑ افراد نقل مکانی کر رہے ہیں جو عالمی آبادی کی 3.6 فیصد لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
خطرات کیا ہیں؟
وسطی بحیرہ روم کے لیے ‘یو این ایچ سی آر’ کے خصوصی نمائندے ونسنٹ کوچیٹل نے کہا ہے کہ ضروری خدمات کی عدم موجودگی میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو نقصان اور موت کا شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
’اس معاملے میں امدادی اداروں کے پاس مقامی حکام کے ساتھ براہ راست شراکت کی صلاحیت نہیں ہے، مقامی انتظامیہ مہاجرت کے راستوں پر اور ایسی جگہوں پر بھی موجود ہوتی ہے جہاں تحفظ کے خدشات یا مقامی حکام کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باعث امدادی کردار موجود نہیں ہوتے۔‘

ونسنٹ کوچیٹل کے مطابق یہی وجہ ہے کہ مہاجرت کے راستوں پر پناہ گزینوں اور مہاجرین کو تحفط دینے کے لیے مقامی انتظامیہ کے ساتھ شراکت استوار کرنا ضروری ہے، انہوں نے عطیہ دہندگان سے اداروں اور مخصوص مقامات پر مقامی شراکت داروں کے امدادی کام میں تعاون کی اپیل بھی کی۔
ان کے مطابق اس شراکت داری میں مہاجرت کے قانونی راستوں تک بہتر رسائی، انسانی اسمگلنگ کے متاثرین اور مہاجرت کے راستوں پر ممکنہ متاثرین کو تحفط فراہم کرنے سے متعلق خدمات میں بہتری لانا بھی شامل ہے۔
مہاجرت کا عالمی تناظر
افریقی تارکین وطن سمیت ایشیائی اور مشرقی وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ان راستوں پر سفر کرتے ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر اپنے اس ممکنہ طور پر جان لیوا سفر سے جڑے خدشات اور خطرات کا صحیح ادراک نہیں کر پاتے اور سرحدی علاقوں کے قریب صحرا کو عبور کرتے ہوئے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ان میں سے بیشتر افراد انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں بشمول جنسی تشدد، اغوا، تشدد اور جسمانی بدسلوکی کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ موزوں مقدار میں مالی وسائل کی بدولت ان مہاجرین اور تارکین وطن کو پناہ اور تحفظ کی فراہمی، مہاجرت کے سفر پر پیش آنے والے ممکنہ خطرات سے آگاہی اور انصاف تک رسائی میں مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔
انسانی اسمگلنگ کا المیہ
یو این ایچ سی آر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایتھوپیا، نیجر، مصر اور مراکش میں مہاجرت کے راستوں پر تارکین وطن کو تحفظ دینے کی کوششوں میں بہتری آئی ہے، ان ممالک میں انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی بھی وجود رکھتی ہے تاہم یہاں ابھی تک اسمگلنگ کے متاثرین کے لیے مخصوص خدمات کی شدید کمی ہے۔
’انسانی اسمگلنگ اور خواتین کے خلاف تشدد کے مابین واضح تعلق ہے جبکہ انسانی اسمگلنگ سے متاثرہ خواتین کے لیے خصوصی خدمات اور انہیں مدد فراہم کرنے کے طریقہ ہائے کار کی کمی ہے، صرف مراکش اور ایتھوپیا میں ہی ایسی خواتین کے لیے خدمات دستیاب ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ آئندہ سال یہ محدود سی سہولت بھی برقرار نہیں رہ پائے گی۔