ڈیلی قدرت سپیشل

بیوی کو کبھی 500 روپے دیتا تھا، کبھی 300 روپے مگر وہ ۔۔ جانیے مستنصر حسین تارڈ اور ان کی فیملی کے بارے میں دلچسپ معلومات

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سیلیبریٹیز جن میں اداکار، فلم ساز، سیاسی شخصیات شامل ہیں، پاکستان بھر میں اپنے منفرد انداز اور ساسی گرما گرمی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان شخصیات کو اگرچہ دنیا آج بھی یاد کرتی ہے، مگر ان سب میں معتبر آج بھی ادیب اور مصںف ہیں۔ ہماری ویب کی اس خبر میں ایک ایسے ہی مصنف کے بارے میں بتائیں گے جنہوں نے اپنے الفاظ کے ذریعے معاشرے میں بہتری کے لیے پہلا قدم اٹھایا۔ مصنف مستنصر حسین تارڈ ایک ایسے مصںف ہیں جن کی تصنیف نے پاکستان بھر میں اپنا مقام بنا لیا تھا۔ 1939 کو لاہور شہر میں پیدا ہونے والے مستنصر حسین تارڈ کا شمار ان ادیبوں اور مصنوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے پاکستان کو آزاد ہوتے دیکھا اور وہ اس خون خرابے اور دنیا بڑی ہجرت کے چشم دید گواہ ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بٹوارے پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جسے ادب کے مداح آج بھی پسند کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڈ نے ابتدائی تعلیم لاہور کی ایک مسجد سے حاصل کی جبکہ رنگ محل مشن ہائی اسکول سے میٹرکی کیا۔ مستنصر حسین تارڈ نے گورمنٹ کالج لاہور میں بھی داخلہ لیا تھا، اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ مستنصر حسین تارڈ کو ادب اور ادبی محفلوں سے بے حد لگاؤ ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1957 میں ماسکو میں ہونے والے عالمی یوتھ فیسٹیول میں شرکت کی۔

اس عالمی ایونٹ کے حوالے سے بھی مستنصر حسین تارڈ نے باقاعدہ ایک کتاب فاختہ لکھی تھی۔ مستنصر حسین سرکاری ٹی وی پر الیکشن ٹرانسمشن بھی ہوسٹ کر چکے ہیں جبکہ وہ مختلف ڈراموں جن میں ایک حقیقت ایک افسانہ، ہزار راستے، پرندہ، کیلاش، فریب اور دیگر شامل ہیں، لکھ چکے ہیں۔ کئی کتابیں جن میں اندالوس میں اجنبی، بہاؤِ بے لزتی خراب سمیت کئی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں۔ جبکہ مستنصر حسین تارڈ اخبار جہاں، ڈان سمیت کئی میڈیا پلیٹ فارمز پر کالم لکھ چکے ہیں۔ مستنصر حسین تارڈ اپنی فیملی سے متعلق بتاتے ہیں کہ میرے دادا دریاے چناب کے پاس ایک چھوٹا سا گاؤں ہے وہاں سے تشریف لائے تھے لاہور۔ میرے والد اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے، اور اس وقت لاہور میں تھے جب میں ہونے والا تھا۔ دادا اور دادی پوتے یا پوتی کی پیدائش کے حوالے سے بے تاب تھے، والد نے خط کے ذریعے انہیں بتانا تھا۔ جب خط دادی کو ملا تو انہیں پڑھنا نہیں آتا تھا اور دادا کھیت میں تھے۔ دادی خط لے کر مولوی صاحب کے پاس گئی اور کہا کہ مولوی صاحب مجھے ایک خواب آیا تھا کہ میرے گھر میں بیری کا درخت ہے اور اس پر چراغ روشن ہیں تب مولوی صاحب نے کہا تھا کہ پوتا ہو یا پوتی یہ تمہارا نام روشن کرے گا۔ دادا کو جب پتہ چلا میری پیدائش کا تو انہوں نے اپنی پگڑی زمین پر بچھا دی اور کہا کہ سب کو کہو مجھے مبارک باد دینے آئیں میرے گھر پوتا پیدا ہوا ہے۔ چونکہ میں مسجد میں پڑھا کرتا تھا، تو وہ مارتے بھی تھے، اسی لیے میں دوری طرف مکل چکا تھا۔ مگر پھر واپس صحیح ٹریک پر آ گیا۔ اہلیہ میمونہ تارڈ کہتی ہیں کہ گھر بیٹھا شوہر ساس کی طرح ہوتا ہے، اور میری شادی بھی ساس ہی سے ہوئی تھی۔ میمونہ تارڈ اور مستنصر حسین تارڈ ایک ایسا جوڑا ہے جس نے ہر لمحہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، اور اس وقت بھی ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے۔ بیٹے سمیر کو شکایت تھی کہ والدہ نے مجھے سی ایس ایس کی طرف بھیج دیا، اپنا سارا تجربہ مجھے دے دیا۔ جبکہ مستنصر حسین اہلیہ سے متعلق کہتے ہیں کہ اہلیہ کی وجہ سے میں نے مزاح نگاری پر لکھنا چھوڑا تھا، اہلیہ ایک بہترین تنقید نگار ہیں۔ میں نے ان کی تنقید کو ہمیشہ سنجیدگی سے لیا ہے۔ اہلیہ نے پورا گھر سنبھالا ہوا تھا۔ مستنصر حسین کہتے ہیں کہ مجھ پر 50 سال پہلے ایک موقع ایک ایسا آیا تھا جب مجھے ادب، میڈیا اور کاروبار میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا۔ کیونکہ گھر کے حالات مجھے مجبور کر رہے تھے۔ جب یہ بات مستنصر صاحب نے اہلیہ کو بتائی تو اہلیہ کا کہنا تھا کہ دیکھیں کاروبار میں آسائش تو ہوگی مگر آپ خوش نہیں رہ پائیں گے۔ اور میں آُپ کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں بتایا تھا کہ اس وقت سخت مقام لمحے بھی آئیں گے، کیونکہ لکھنے سے گھر کا خرچ پورا نہیں ہو پائے گا۔ جس پر اہلیہ نے کہا میں کبھی آپ سے شکایت نہیں کروں گی۔ اور مجھے یاد ہے کہ میں نے اہلیہ کو ایک دن 500 روپے دیے کبھی 300 روپے دیے۔ مگر اہلیہ نے کبھی شکایت نہیں کی۔ ہمیشہ خوش رہی ہیں۔ یہی مجھے ان کی سب سے اچھی کوالٹی لگتی ہے۔ اگرچہ کئی معاملات میں اہلیہ اختلاف کرتی ہے اور ساتھ نہیں دیا مگر اس معاملے وہ میرے قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہیں۔ مستنصر حسین تارڈ کے دو بیٹے ہیں ایک بیٹا سلجوک مستنصر جو کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی طرف سے فارن سروس آفیسر ہیں جبکہ دوسرے بیٹے سمیر مستنصر ہیں جو کہ کسٹم اینڈ ایکسائز میں آفیسر ہیں۔ اکلوتی بیٹی عینی تارڈ ہے جو سب کی آںکھ کا تارا ہے۔

متعلقہ خبریں