ہمارے ساتھ 9 مئی میں ملوث عناصر جیسا سلوک کیا جارہا ہے، چمن مظاہرین
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاک افغان سرحدی شہر چمن میں آمدورفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے خلاف پرلت کمیٹی کا احتجاجی دھرنا ساڑھے 8 ماہ سے جاری ہے جبکہ 4 جون کو کوئٹہ چمن قومی شاہراہ پر دھرنا ختم کروانے کے بعد سے سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ تیسرے روز بھی بدستور جاری ہے۔
چمن میں نماز جمعہ سے قبل ایک بار پھر مال روڈ پر مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز آمنے سامنے تھے اس دوران سیکیورٹی فورسز کی آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج سے مزید 3 افراد زخمی ہوئے جس کے بعد 3 روز کے دوران زخمی ہونے والے احتجاجیوں کی تعداد 43 تک جا پہنچی۔
علاقے میں انٹرنیٹ سروس ہنوز معطل
علاقے میں حالت کی کشیدگی کے باعث 3 روز سے انٹرنیٹ سروس معطل ہے جبکہ موبائل فون سنگلز بھی جزوی طور پر غیر فعال ہے۔
اس صورت کے باعث کوئٹہ چمن پیسنجر ٹرین سروس غیر معینہ مدت تک معطل کردی گئی ہے۔ شہر میں ٹریفک کی روانی کو بحال رکھنے کے لیے جگہ جگہ سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں جبکہ پرلت کمیٹی کی کال پر گزشتہ 3 دن سے شہر میں شٹر ڈوان ہڑتال کے باعث کاروباری مراکز مکمل طور پر بند ہیں۔
چمن میں کشیدہ صورتحال کے پیش نظر صوبائی حکومت کی جانب سے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی زیر صدارت اعلٰی سطحی اجلاس منعقد کیا گیا اور شرکا کو محکمہ داخلہ کی جانب سے پاک افغان سرحدی علاقے چمن کی مجموعی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ چمن میں مقامی تاجر پیشہ افراد کو درپیش مشکلات اور مسائل گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہیں بارڈر ایریا کے مقامی افراد کو درپیش مشکلات اور مسائل کا ادارک ہے تاہم سیکیورٹی فورسز اور املاک پر حملہ ناقابل قبول ہے قانون سے کوئی مبرا نہیں لہٰذا قانون ہاتھ میں لینے سے گریز ضروری ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے لیکن احتجاج کی آڑ میں تشدد کی اجازت نہیں دی جاسکتی ریاست کی رٹ ہر صورت برقرار رکھی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ چمن میں مظاہرین کی جانب سے اشتعال انگیزی کے باوجود حکومت صبر و برداشت اور تحمل سے کام لے رہی ہے ہم بخوبی جانتے ہیں کہ چمن کے مقامی لوگوں کی اکثریت امن پسند ہے اور ضروری ہے کہ مفاد عامہ کے پیش نظر قیام امن میں رخنہ ڈالنے والے چند عناصر کی مقامی لوگ خود ہی حوصلہ شکنی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈرز بارڈر ایریا میں قیام امن کے لیے مقامی افراد کو بھی قائل کریں کہ وہ کسی خلاف قانون کسی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنیں۔
مقامی افراد شرپسندوں کی صفوں سے الگ ہوکر امن کے لیے کردار ادا کریں، وزیراعلیٰ
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مظاہروں کی آڑ میں حالات خراب کرنے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگی مقامی لوگوں کو شرپسندوں کی صفوں سے الگ ہوکر قیام امن کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا اور حکومت مقامی لوگوں کے خدشات دور کرکے مشکلات حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
دوسری جانب پرلت کمیٹی کے ترجمان اولس خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے 4 جون کو مذاکرات کے لیے دعوت دی گئی جس کے لیے 8 رکنی کمیٹی کو ڈی سی آفس بھجا گیا لیکن وہاں ہمارے لوگوں پر تشدد کرکے انہیں اغوا کیا گیا اور اب تک انہیں عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ، آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کے دوران اب تک ہمارے 50 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ جبری طور پر ڈیڑھ سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اولس خان نے بتایا کہ چمن سول اسپتال میں ہماری زخمیوں کو منتقل کیا گیا ہے تاہم وہاں بھی انہیں بہتر طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ دانستہ طور پر ایسا رویہ اختیار کیا جارہا ہے اور 9 مئی کے ملزمان جیسا برتاؤ ہو رہا ہے۔
’چمن و اسپن بولدک کے درمیان ویزا سسٹم ختم کیا جائے‘
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ملک کے دستور کے خلاف نہیں اور نہ ہی ہم پاسپورٹ رجیم کے خلاف ہیں ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ماضی کی طرح چمن اور افغانستان کے علاقے اسپن بولدک کے درمیان ویزے کی شرط کو ختم کیا جائے اور اس کے علاوہ افغانستان کے دیگر علاقوں تک رسائی کے لیے ہم ویزا لگانے کو تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ دونوں علاقے قیام پاکستان سے قبل ایک تھے اور یہاں کہ افراد قومی شناخت دکھا کر ایک دوسرے ملک آیا جایا کرتے تھے لیکن اب ویزے کی شرط نے ہمارے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔