ایکس ہینڈل پر پوسٹ کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، عمران خان کا ایف آئی اے کی تفتیش کے دوران اعتراف
اسلام آباد (قدرت روزنامہ) وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کی تفتیشی ٹیم نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے بانی چیئرمین کے ایکس (سابق ٹویٹر) پر پوسٹ کی جانے والی حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کے مندرجات پر مشتمل ویڈیو کے حوالے سے سوالات کیے ہیں۔
جمعہ کو اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کے دوران عمران خان نے ایف آئی آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی معاملے پر تفتیش سے پہلے ایف آئی اے میرے خلاف سائفر جیسا بےبنیاد مقدّمہ بنانے پر مجھ سے معافی مانگے۔
عمران خان نے کہا کہ ’سائفر کے بعد بطور وزیراعظم میں نے پاکستان کی خودمختاری کے تحفّظ اور اپنی قوم کا سر فخر سے بلند کرنے کے لیے امریکیوں کو احتجاجی مراسلہ بھجوایا اور حقائق اپنی قوم کے سامنے رکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنی قوم کے لیے میرا پیغام واضح تھا کہ ہم ایک خودمختار اور غیرت مند قوم ہیں جو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت ہرگز قبول نہیں کرتی، سائفر درحقیقت جنرل باجوہ کو بھیجا گیا تاٗکہ وہ اس کے مطابق میری منتخب جمہوری حکومت کو ختم کرسکے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ جنرل باجوہ نے اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے چوروں سے ساز باز کی اور انہیں قوم پر مسلط کیا گیا۔ میں اپنے ایکس (ٹویٹر) اکاؤنٹ پر کی جانے والی پوسٹس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں تاہم جیل میں ہونے کے باعث اپ لوڈنگ سے پہلے ویڈیو نہیں دیکھ سکا۔
عمران خان نے کہا کہ آج جب مجھے ویڈیو دکھائی گئی جو حمودالرحمٰن کمیشن کے مندرجات پر مشتمل ہے، اگر اپ لوڈنگ سے قبل ویڈیو دکھائی جاتی تو پیغام کو مزید مؤثر کرنے کے لیے اس میں چند معمولی تبدیلیاں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ ہماری قومی تاریخ کے المناک حادثے کے اسباب، وجوہات اور کرداروں کا احاطہ کرتی ہے، حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے دو بنیادی اہداف تھے جن میں ایک سانحے کے ذمہ داروں کا تعین جبکہ دوسرا غلطیوں کی نشاندہی تھا۔
عمران خان نے کہا کہ ’حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کا حوالہ اس لیے دیا کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں، حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کے پیرائے میں جنرل یحییٰ خان پر جتنی تنقید کی جاتی ہے وہ ان کی سیاسی فیصلہ سازی پر کی جاتی ہے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’مشرقی پاکستان میں تعینات جنرل یعقوب اور ایڈمرل احسن نے یحیٰ خان کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے منع کیا جس پر انہیں مستعفیٰ ہونا پڑا، دستور فوج کو سیاست سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہنے کا پابند بناتا ہے تاکہ تنقید سے محفوظ رہ کر اپنے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے سکیں۔
عمران خان نے کہا کہ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ جنرل یحییٰ خان پوری طرح سیاسی فیصلہ سازی کے مرتکب تھے، سیاسی فیصلوں پر پوری دنیا میں تنقید کی جاتی ہے اور جمہوریت سیاسی فیصلوں پر تنقید کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق ’ فوج کا سربراہ کسی انتخاب یا ریفرنڈم کے ذریعے مسند نہیں پاتا چنانچہ اس کا خود کو اور ادارے کو سیاست اور سیاسی فیصلوں سے الگ رکھنا ہی فوج کے مفاد میں ہوتا ہے اور آئین بھی اسی کا حکم دیتا ہے۔ فوج کا سربراہ جب سیاست میں ملوث ہوتا یا سیاسی فیصلے کرتا ہے تو اپنے منصب سے الگ ہو کر سیاسی دائرے میں قدم رکھتا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ انتخابات کے بعد فیصلہ کن برتری اور عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت کو اقتدار منتقل نہ کرنا اور ملک کو المناک حادثے کی بھینٹ چڑھنے دینا جنرل یحیٰ خان کے فیصلے تھے، عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے پر تب حالات تیزی سے داخلی انتشار اور بگاڑ کی جانب گئے اور ملک دولخت ہوا۔
عمران خان کے مطابق ’ یحییٰ خان کے سیاسی فیصلوں میں حصہ لینے کے اسی شوق کی پاکستان اور افواجِ پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی، سیاسی فیصلے کرنے اور پوری طرح سیاست میں ملوث ہونے کے بعد جنرل یحییٰ خان کے لیے فوج کے پیچھے چھپنا ہرگز ممکن نہ تھا چنانچہ حمود الرحمٰن کمیشن اور تاریخ دونوں نے اس کے کردار پر اپنی تنقیدی رائے دی۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ’ 70کے واقعات اور آج کے حالات کے مابین غیرمعمولی مماثلت ہر ذی شعور پاکستانی کے لیے تشویش کی وجہ ہے، 70میں ملک دولخت ہوا تو آج ہماری معیشت زمین بوس ہو چکی ہے جبکہ اس میں بہتری کے امکانات کم سے کم تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔
عمران خان کے مطابق ایس آئی ایف سی کے ذریعے معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی ہے، ملک کی سب سے بڑی اور عوامی مینڈیٹ کی حامل جماعت کو لاقانونیت سے کچلنے کی کوشش کرکے معیشت میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔
عمران خان نے سوال کیا کہ ’ ایف آئی اے سراغ لگائے کہ اظہرمشوانی کے بھائیوں کو کس نے کس جرم میں اغوا کیا، سوشل میڈیا ورکرز ہمارے ہیروز اور قوم کا اثاثہ ہیں، ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی ہراسگی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کی بہتری کے امکانات تبھی پیدا ہوں گے جب عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا اور فیصلہ سازی عوامی مینڈیٹ کے حامل جمہوری نمائندوں کو سونپی جائے گی۔