آئندہ مالی سال کا 18.5 ٹریلین روپے مالیت کا بجٹ آج پیش کیا جائے گا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کے حصول کی کوشش میں حکومت آئندہ مالی سال برائے 2024-25 کا بجٹ آج پیش کرے گی، جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف گزشتہ مالی سال کے 9.252 ٹریلین روپے کے نظرثانی شدہ تخمینے کے مقابلے پر 12.97 ٹریلین روپے رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایف بی آر نے 2023-24 کے آخری بجٹ کے موقع پر پارلیمنٹ سے منظور شدہ 9.415 ٹریلین روپے کے ابتدائی ہدف کے مقابلے میں 9.2 ٹریلین روپے کے ٹیکس وصولی کے ہدف پر نظر ثانی کی تھی، حکومت اگلے بجٹ میں مجموعی مالیاتی خسارے کو 7.6 فیصد سے کم کرکے جی ڈی پی کے 6.5 فیصد تک لانا چاہتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس آج دوپہر اڑھائی بجے طلب کیا ہے، جس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کے خدوخال سمیت نئے ٹیکسز اور عوام کے لیے ریلیف سمیت دیگر اہم بجٹ پوائنٹس کابینہ میں پیش کیے جائیں گے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بجٹ پر کابینہ اراکین کو بریفنگ سمیت ان کے سوالوں کے جواب بھی دیں گے، کابینہ سے منظوری کے بعد بجٹ 2024-25 آج شام چار بجے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ان لینڈ ریونیو کے محاذ پر سب سے زیادہ ٹیکس ریونیو کو متحرک کرنے کی کوششیں کی جائیں گی تاکہ برائے نام شرح نمو، موثر نفاذ اور بڑے پیمانے پر ٹیکس کے اقدامات کے ذریعے انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں بالترتیب 1.7 ٹریلین اور 1.3 ٹریلین روپے کی آمدنی ممکن بنائی جاسکے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے 12.97 ٹریلین روپے سالانہ ٹیکس وصولی کے ہدف میں سے، ایف بی آر نے براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے 5.512 ٹریلین روپے ٹیکس وصولی کا تعین کیا ہے، جس میں انکم ٹیکس کی مد میں 5.45 ٹریلین روپے، 4.919 ٹریلین روپے سیلز ٹیکس، جبکہ 0.948 ٹریلین اور 1.591 ٹریلین روپے بالترتیب فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں وصول کیے جائیں گے۔
ٹیکس کی محدود بنیاد کو بڑھانے کے ضمن میں آئی ایم ایف نے ٹیکس دہندگان کے تفصیلی ڈیٹا بشمول ان کی سماجی و اقتصادی خصوصیات اور ان پر واجب الادا ٹیکس تک رسائی کی تجویز دی ہے، ایف بی آر انتظامیہ سے ٹیکس دہندگان کی سطح کے ڈیٹا تک رسائی اس ضمن میں اہم ہے۔
اضافی ڈیٹا جس کی ٹیکس پالیسی یونٹس کو ضرورت ہو سکتی ہے اس میں قومی شماریاتی ایجنسیوں سے گھریلو بجٹ کے سروے، قومی شماریاتی ایجنسیوں اور مرکزی بینکوں کے کاروباری سروے، سماجی تحفظ کے اعداد و شمار، ریکارڈ سے جائیداد کے بارے میں معلومات اور تجزیہ کی قسم پر منحصر دیگر ڈیٹا جو یونٹ کے فرائض کی انجام دہی کے لیے درکار ہوتا ہے۔
ٹیکس پالیسی یونٹ اور ڈیٹا کے حامل سرکاری اداروں کے درمیان ڈیٹا شیئرنگ کے انتظامات قائم کرنے میں رازداری سے متعلق خدشات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ایف بی آر کو بڑے ڈیٹا کے ساتھ کام کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہو گا جس کا تبادلہ، ذخیرہ، انتظام اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت پینشن اصلاحات کے محاذ، سبسڈیز اور ریاستی ملکیتی کاروباری اداروں کے اخراجات میں کٹوتی بھی کرے گی، متوقع بجٹ کے لیے 18.5 ٹریلین روپے سے زائد کے مجموعی اخراجات کے ساتھ، حکومت کو ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات کے ساتھ ساتھ اخراجات کی جانب بھی توجہ کرنا ہوگی۔