اراکین بلوچستان اسمبلی اعتراف کرتے ہیں کہ وہ پیسے دے کر الیکشن جیتے ایپکس کمیٹی کے ممبران کے بچے بین الاقوامی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں بلوچستان میں اس سے 2 ہاتھ آگے فارم 49 والے اراکین اسمبلی موجود ہیں مولانا ہدایت الرحمن کا اہم انکشافات


کوئٹہ(قدرت روزنامہ) رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے دعوی کیا ہے کہ صوبے کے ایم پی ایز کہیں ببانگ دہل اور کہیں خاموشی کے ساتھ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ انتخابات میں پیسہ کھلاکر جیتے)وی نیوز(کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ وہ گوادر کے لوگوں کے مشکور ہیں جنہوں نے ان پر اعتماد کرکے ایوان میں بھیجا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے صرف قائدین نے نہیں بلکہ کارکنوں نے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لہذا ہم لوگوں کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے
انہوں نے مزید کہا کہ عوام ہمیں 5 سال کے لیے منتخب کرتے ہیں اور 3 سے 4 ماہ میں حالات کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا تاہم ان 3 ماہ میں ہم نے کوشش کی ہے کہ بیوروکریسی میں ایسے افراد کو گوادر لائیں جو ایمان دار ہوں اور عوام کا درد سمجھتے ہوں گوادر میں چیک پوسٹوں میں اضافہ اور باڑ لگانے سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ جس میٹنگ کا حوالہ دیا جاتا ہے میں اس میں خود شریک تھا اس میٹنگ میں گوادر میں باڑ لگانے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا
اس بیٹھک میں گوادر سیف سٹی کے نام سے پراجیکٹ سے متعلق بات ہوئی تھا جس سے شہر کو محفوظ بنانے کے لیے کیمرے نصب کیے جائیں گے ہم اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں تاہم ہم باڑ لگانے کی ہمشیہ مخالفت کرتے رہیں گےانہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں چیک پوسٹوں کا فرسودہ نظام ختم ہوچکا ہے اس مسئلے کو آئی ٹی کے ذریعے حل کیا جاتا ہے، ہم ہمیشہ غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی جس کا کام عوام کے سر پر ہاتھ رکھنا ہوتا ہے نہ کہ ان پر تشدد کرنا۔ چمن کے لوگ اپنا آئینی حق مانگ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سرحد کے قریب رہنے والے لوگوں کو ریلیف فراہم کی جاتی ہے اور یہاں ہم ان کا روزگار چھین رہے ہیں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلے کرلیے جاتے ہیں مگر روزگار فراہم نہیں کیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ آئین کا غدار کون ہے چمن کے لوگ یا وہ حکمران جو عوام کو روزگار نہیں دیتے۔ بندوق کے استعمال سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔
چمن کے لوگ پر امن احتجاج کر رہے تھے ریاست نے ان پر تشدد کر کے انہیں یہ پیغام دیا کہ ہتھیار اٹھائیں اور تشدد کا راستہ اپنائیں۔ ہم نے چمن کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کیا لیکن ایوان میں کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دیامولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ہماری سرحدیں ایران اور افغانستان سے کچھ یوں ملی ہوئیں ہیں کہ مسجد کا گنبد پاکستان میں ہے تو برآمدہ افغانستان میں، آدھا گھر لوگوں کا ایک ملک میں ہے اور آدھا دوسرے میں تو ان لوگوں کی زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ چمن کے لوگوں کی 10 لاکھ ایکٹر زمین افغانستان میں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست کو چلانے والے تو اپنے پیسے تک بیرونی ممالک لے جاتے ہیں اور جزیرے خریدتے ہیں اور لغڑیوں کو دوسرے ملک جانے سے روکا جاتا ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان لغڑیوں پر آپریشن ہوتا ہے تو پھر ان پر بھی ہونا چاہیے جو ملک کا پیسہ باہر لے جاتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ہدایت الرحمان نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل ماشکیل کے لوگ پیدل احتجاجا کوئٹہ پہنچے۔ اس وقت ماشکیل سمیت مکران ڈویژن کے سرحدی علاقوں میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس علاقے کے لوگوں کو ایران سے اشیا خورونوش سستی پڑتی ہیں لیکن انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مہنگے داموں پاکستانی اشیا خریدیں جو عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
یہ مسئلہ ایرانی یا افغانی حکومت کا نہیں بلکہ ہمارے لوگوں کے روزگار کا ہے انہوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کے ممبران کے بچے بین الاقوامی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ہمارے بچوں کو تجارت سے روکا جارہا ہے۔مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ کیا سرحد بند کرکے آپ 35 لاکھ لوگوں کو بے روزگار کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ سرحد پر تجارت نہ کریں
بلکہ پہاڑ پر جائیں۔انہوں نے کہا کہ ان حکمرانوں کے کتے مکھن کھاتے ہیں اور ہمارے بچوں کو روٹی نصیب نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ملک میں ظلم کا نظام قائم رہے گا تب تک قیام امن ممکن نہیں ہوگا۔مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ فکر اور محتاجی میں لوگ اللہ اور اس کے رسول کو بھول جاتے ہیں
تو ریاست کیا شئے ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں 80 سے 85 فیصد کرپشن ہے اور نظام مغلیہ دور جیسا ہے اور چوں کہ حکمران بادشاہ ہیں بجٹ میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ممبران خود کہتے ہیں کہ ہم پیسے دے کر ایوان میں آئے ہیں اور یہ بات وہ کبھی خاموشی سے تو کبھی کھلے عام کہتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اب نہ جانے ان ایم پی ایز نے کن کو پیسے دیے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر صوبوں میں فارم 45 اور 47 والے ایم پی ایز اور ایم این ایز ہیں لیکن بلوچستان میں اس سے 2 ہاتھ آگے فارم 49 والے اراکین اسمبلی موجود ہیں