کم سے کم ماہانہ تنخواہ 37 ہزار، مگر ملتی کس کو ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وفاقی بجٹ 25-2024 میں حکومتِ پاکستان نے کم سے کم ماہانہ اجرت میں 5ہزار کا اضافہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس سے قبل کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے تھی جو اب بڑھا کر 37 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
تاہم 37 ہزار تو دور کی بات پرائیویٹ سیکٹر میں مختلف ذمہ داریاں نبھانے والے ایسے بھی نوکری پیشہ افراد ہیں جن کی تنخواہ پچھلے بجٹ میں طے کی گئی کم سے کم تنخواہ یعنی 32 ہزار روپے سے بھی کم ہے۔
وفاقی حکومت خود عمل نہیں کرتی
پرائیویٹ سیکٹر کا معاملہ تو اپنی جگہ بعض وفاقی وزارتوں میں بھی کم سے کم ماہانہ اجرت ادا نہیں کی جاتی۔ ان وزارتوں میں کام کرنے والے مالی، بیلدار، سینیٹری ورکر، نائب قاصد، اور میسنجر وغیرہ کو 25 سے 28 ہزار روپے تنخواہ دی جا رہی ہے۔
وزارت اطلاعات کے ایک آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ اس وزارت اور اس کے ذیلی اداروں میں کم سے کم تنخواہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ مستقل عملے کے علاوہ عارضی ملازمین اور اسائنمنٹ بیسز (دیہاڑی دار) پر کام کرنے والے افراد کو کم سے کم تنخواہ کا آدھا حصہ بھی ادا نہیں کیا جا رہا۔
انہوں نے بتایا کہ بجٹ 25-2024 پیش ہونے سے 2 ہفتے قبل پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) نے پریس انفارمیشن آفیسر (پی آئی او) سے ملازمین کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں ملازمین گزشتہ بجٹ میں مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ کا اطلاق اس بجٹ تک بھی نہ کرا سکے، وہاں انہیں اس بجٹ میں مقرر کی گئی کم سے کم تنخواہ کے 37 ہزار روپے کب ملیں گے۔
ماہانہ 15 ہزار تنخواہ والا طبقہ
ان افراد میں سرِ فہرست سیکیورٹی گارڈ ہیں جنہیں پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیاں ماہانہ 15 سے 25 ہزار روپے تک تنخواہ ادا کرتی ہیں۔ گجرات سے اسلام آباد آکر سیکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے والے نعیم افضل نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں سیکیورٹی گارڈ ہیں جو انہیں کسی بھی ایک جگہ مستقل نوکری نہیں کرنے دیتی بلکہ ہر دوسرے یا تیسرے مہینے ڈیوٹی کی جگہ تبدیل کرتی رہتی ہے۔
یوں نعیم کبھی کسی بینک، اسکول، سرکاری عمارت، گھر، اسپتال، دکان، یا نجی دفاتر میں سیکیورٹی گارڈ کے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں جن کے عوض کمپنی کی طرف سے انہیں 18 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کی صورت میں ادا کیے جاتے ہیں۔ جب انہوں نے 3 سال قبل یہ کمپنی جوائن کی تھی تو ان کی تنخواہ محض 15 ہزار روپے تھی جس میں ان کی جانب سے بار بار اصرار کرنے پر ایک سال کے بعد 3 ہزار روپے اضافہ کیا گیا، تب سے آج تک ان کی تنخواہ میں ایک روپے کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ کمپنی صرف ریٹائرڈ فوجیوں کو 25 سے 30 ہزار روپے تنخواہ دیتی ہے اور ان کی ڈیوٹی بھی نسبتاً آسان سمجھی جانے والی جگہوں پر لگائی جاتی ہے۔ نعیم کے بقول نئے بھرتی کیے جانے والے تمام سول سیکیورٹی گارڈز کو 15 ہزار روہے ماہانہ ادا کیا جاتا ہے۔
’ان میں سے اکثر ایک یا دو مہینے نوکری کرنے کے بعد چھوڑ جاتے ہیں جس کا سدباب کرنے کے لیے بھرتی کے وقت ان کا شناختی کارڈ اور ایک مہینے کی آدھی تنخواہ بطور ضمانت رکھ لی جاتی ہے تاکہ وہ نوکری چھوڑ کر نہ جا سکیں‘۔
کام کے اوقات کے بارے میں نعیم کا کہنا تھا کہ ہر سیکیورٹی گارڈ کو 12 گھنٹے لگاتار ڈیوٹی دینا پڑتی ہے اور اس دوران کھانا پینا بھی اپنی جیب سے ہوتا ہے۔ اکثر اوقات جس دفتر یا گھر میں ان کو تعینات کیا جاتا ہے، وہاں کے افراد انہیں ایک ٹائم کا کھانا دے دیتے ہیں، لیکن اتنے تعلقات بننے سے قبل ہی کمپنی ان کا نئی جگہ تبادلہ کر دیتی ہے۔
نعیم نے بتایا کہ وہ تنخواہ کے پورے 18 ہزار روپے گھر بھیج دیتے ہیں، جس سے ان کے گھر کے 6 افراد کا راشن بھی پورا نہیں ہوتا۔
ایک پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی میں ایڈمن آفیسر رہنے والے عبد الصمد نے بتایا کہ کمپنیاں اپنے کلائنٹس سے سکیورٹی گارڈ کی تنخواہ سے زیادہ پیسے وصول کرتی ہیں لیکن اگر وہ رقم بھی کسی کٹوتی کے بغیر گارڈ کو دے دی جائے تو بھی اس کی تنخواہ 37 ہزار روپے نہیں بن سکتی۔
ان کے مطابق صرف بین الاقوامی ادارے، غیر ملکی این جی اوز، اور دوسرے ممالک کے سفارت خانے فی گارڈ کے حساب سے اتنی رقم دیتے ہیں جو کم سے کم تنخواہ سے کافی زیادہ ہوتی ہے۔ پھر ایسے کلائنٹس سے گارڈز کے یونیفارم، جوتوں، کھانے پینے، اور رہائش کی مد میں الگ سے اچھی خاصی رقم بٹوری جاتی ہے۔
فی گارڈ کے حساب سے ان کلائنٹس سے وصولی جانے والی رقم کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ تقریباً 60 سے 70 ہزار رپے بنتے ہیں، جس میں سے گارڈ کو تنخواہ کی صور میں ماہانہ زیادہ سے زیادہ 30 ہزار روپے ملتے ہیں۔
سینیٹری ورکرز اور پیٹرول اسٹیشن کا عملہ
سیکیورٹی گارڈز کی جیسی صورتحال کا سامنا سینیٹری ورکرز، پیٹرول اسٹیشن کے عملے، آفس بوائے یا چپڑاسی، سیلز مین، ڈرائیور، گھریلو ملازم جیسے خانسامہ اور کام والی، فارم ورکرز، اور ورکشاپ کےعملے کے ساتھ ساتھ کروڑوں محنت کش ایسے ہیں جنہیں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم سے کم ماہانہ تنخواہ بھی ادا نہیں کی جاتی۔
پرائیویٹ سیکٹر میں پچھلے 12 سالوں سے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ میں فرائض سر انجام دینے والے محمد فواد نے بتایا کہ گھر، دکان، اور چھوٹے کاروبار تو اپنی جگہ، بیشتر رجسٹرڈ کمپنیاں بھی اپنے ملازمین کو کم سے کم اجرت ادا نہیں کرتیں۔
انہوں نے بتایا کہ گھروں اور چھوٹے کاروباروں میں تو کیش کی صورت تنخواہ ادا کرنا عام بات ہے لیکن باقاعدہ رجسٹرڈ کمپنیاں بھی ملازمین کو کیش میں تنخواہ ادا کرتی ہیں جس کا مقصد ٹیکس اور کم سے کم تنخواہ کے قانون سے بچنا ہوتا ہے۔
فواد کا کہنا تھا کہ صرف تنخواہ کے معاملے پر ہی محنت کشوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی بلکہ ان کے دیگر حقوق کی خلاف ورزی بھی عام بات ہے۔
یاد رہے کہ تنخواہ میں اضافہ ابھی محض ایک تجویز ہے جس کے نفاذ کا فیصلہ بجٹ پر اسمبلی اجلاس کے دوران بحث میں ہوگا۔ عموماً بجٹ میں دی گئی کئی تجاویز اجلاس کے دوران اتحادیوں یا اپوزیشن کی ایما پر یا تو واپس لے لی جاتی ہیں یا مکمل رد کر دی جاتی ہیں۔