وہ انجینئیر جس نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ڈیزائن کے بدلے سعودی حکومت سے ایک روپیہ تک معاوضہ لینے سے انکار کیا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مکہ میں موجود مسجد الحرام ہو یا مدینہ کی مسجد نبوی دونوں مقامات مسلمانوں کے نزدیک بہت مذہبی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں سعودی عرب کے شاہ فہد کے دور میں ان دونوں اہم مساجد کی توسیع اور تعمیر نو کے ڈیزائن بنانے والا کون تھا؟
سعودی عرب کے شہر مدینہ میں واقع مسجدِ نبوی دنیا میں مسلمانوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے اور اسے پیغمبرِ اسلام کی زندگی میں ہیڈکوارٹر کی حیثیت حاصل تھی۔اسلامی روایات کے مطابق مسجد نبوی میں ادا کی گئی نماز کا ثواب مکہ میں خانہ کعبہ والی مسجد الحرام کے علاوہ کسی بھی دیگر مسجد میں ادا کی گئی نماز کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے۔
پیغمبرِ اسلام نے یہ مسجد مکہ سے اُس وقت یثرب کہلائے جانے والے شہر مدینہ ہجرت کرنے کے بعد تعمیر کروائی اور مسجدِ قبا کے بعد مدینہ میں تعمیر کی جانے والی یہ دوسری مسجد تھی۔ مکہ میں موجود مسجد الحرام ہو یا مدینہ کی مسجد نبوی دونوں مقامات مسلمانوں کے نزدیک بہت مذہبی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں سعودی عرب کے شاہ فہد کے دور میں ان دونوں اہم مساجد کی توسیع اور تعمیر نو کے ڈیزائن بنانے والا کون تھا؟
مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی وسعت کے منصوبے کی تحت تعمیر نو اور ان کے ڈیزائن بنانے والے شخص کمال محمد اسماعیل ہیں جو سنہ 1908 میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مصر کے ہائی سکول اور بعدازاں رائل کالج آف انجینئرنگ سے گریجویشن کرنے والے سب سے کم عمر طالبعلم تھے۔
کمال محمد رائل کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامی فن تعمیر کی تعلیم حاصل کرنے یورپ گئے اور وہاں سے انھوں نے اسلامی فن تعمیر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پہلے انجینئر تھے جنھوں نے حرمین شریفین کے مجموعی ڈیزائن، توسیع کے منصوبے کی تعمیر نو کا چارج سنبھالا۔
ڈاکٹر اسماعیل کو شاہ فہد نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی مساجد کے توسیعی منصوبے کی نگرانی اور ڈیزائن کرنے کو کہا تھا۔محمد کمال نے الیکٹرک گنبد، سنگ مرمر کے ٹھنڈے فرش اور فرش کو ڈھاپنے والی بڑی بڑی چھتریوں کو متعارف کرانے کے لیے اپنے تجربے کا استعمال کیا۔ یہ آرکیٹیکچرل ڈیزائن منفرد تھا جس نے سعودی عرب کے گرم موسم میں لاکھوں عازمین حج کو راحت فراہم کی۔

محمد کمال نے الیکٹرک گنبد، سنگ مرمر کے ٹھنڈے فرش اور فرش کو ڈھاپنے والی بڑی بڑی چھتریوں کو متعارف کرانے کے لیے اپنے تجربے کا استعمال کیا اسلامی فن تعمیر میں مہارت اور وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کے سب سے مقدس مقامات کی توسیع کے منصوبے اور ڈیزائن کے لیے کام کرتے ہوئے ایک روپیہ بھی بطور معاوضہ لینے سے انکار کیا تھا۔
سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فہد اور مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی توسیع کے لیے کام کرنے والی تعمیراتی سعودی عرب کی بڑی کمپنی بن لادن کی طرف سے انھیں اس مشکل اور طویل کام کا معاوضہ ادا کرنے کی کوششوں کے باوجود انھوں نے اپنے انجینئرنگ ڈیزائن اور تعمیراتی نگرانی کے لیے کوئی رقم لینے سے انکار کر دیا تھا۔
انھیں جب حکام کی جانب سے اس کام کے عوض معاوضہ لینے کا کہا گیا تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’میں دنیا کے مقدس ترین مقامات پر اپنے کام کے پیسے کیوں لوں، میں روز قیامت خدا کو کیا منھ دکھاؤں گا؟‘ انھوں نے اپنی نجی زندگی میں زیادہ تر وقت عبادت میں گزارا۔
جب انھوں نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ڈیزائن اور تعمیر نو کے معاہدے پر دستخط کیے تو اس وقت ان کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی مقدس مقامات پر کام کرتے ہوئے گزاری۔
کمال محمد اسماعیل نے 44 سال کی عمر تک شادی نہیں کی تھی۔ ان کی بیوی نے مرنے سے پہلے ایک بیٹے کو جنم دیا۔کمال محمد نے اپنی زندگی کو عبادت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ انھوں نے سو سال سے زیادہ عمر پائی اور ان کی وفات سنہ 2008 میں ہوئی۔

انھیں جب حکام کی جانب سے اس کام کے عوض معاوضہ لینے کا کہا گیا تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’میں دنیا کے مقدس ترین مقامات پر اپنے کام کے پیسے کیوں لوں، میں روز قیامت اللہ کو کیا منھ دکھاؤں گا؟‘
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں استعمال ہونے والا مواد نایاب ہے۔

محمد کمال اسماعیل کے فوب تعمیر میں جہاں مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے ڈیزائن اور توسیع کا منصوبہ شامل تھا وہیں ان کی جانب سے اس فن تعمیر میں سنگ مرمر اور چھتریوں کے جدید استعمال نے حجاج کو جسمانی راحت بھی پہنچائی۔
اگر آپ کو ان مقدس مقامات کی زیارت نصیب ہوئی ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سعودی عرب میں اگرچہ گرمی بہت ہے، لیکن مسجد الحرام کا فرش ٹھنڈا ہے اور اس کی فرش کے ٹھنڈے ہونے کی وجہ عمارت میں استعمال ہونے والا سفید سنگ مرمر ہے۔
ڈاکٹر کمال نے اس منصوبے کے لیے یونان جا کر یہ نایاب سنگ مرمر خریدا تھا۔یہ اپنی غیر معمولی چمک اور سفید رنگ کے لیے جانا جاتا ہے اور گرم گھروں کو ٹھنڈا کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جب مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہوئی تو سعودی عرب کے بادشاہ نے ڈاکٹر کمال سے کہا تھا کہ وہ سفید سنگ مرمر کااستعمال کریں۔
ہر سال حج اور عمرہ کے فرائض ادا کرنے کے لیے آنے والے عازمین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مساجد کی توسیع کی گئی تھی۔