عید قربان کے ساتھ کن لوگوں کے روزگار جڑے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) جانوروں کی خرید فروخت، چھریاں، ٹوکے تیز کرانے اور قصائی کا بروقت انتظام۔۔۔۔ یہ تمام وہ ذمہ داریاں ہیں جو عید الاضحیٰ سے پہلے ہر شخص جلد از جلد نمٹانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جس کا انتظار بعض پیشوں سے وابستہ افراد کو سال بھر رہتا ہے۔ کیونکہ ان کی سال بھر کے لیے آمدن کا انحصار زیادہ تر انہی دنوں پر ہوتا ہے۔ ان میں جانوروں کا چارہ بیچنے والے، جانور پالنے والے، ٹرانسپورٹرز، کوئلے اور انگیٹھیاں فروخت کرنے والے اور جانوروں کے بناؤ سنگھار کا سامان فروخت کرنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
کوثر اعوان کا تعلق اسلام آباد کے علاقہ نور پور شاہاں سے ہے۔انہوں نے بتایا کہ بچھڑے لے کر پالنا بہت مہنگا پڑ جاتا ہے۔ ہم تو اپنے گھر کی گائے کے بچھڑے پالتے ہیں۔ جیسا کہ قربانی کے لیے جانور کا 2 سال کا ہونا لازمی ہے، اس طرح ایک بچھڑے کو 2 برس تک پالنا ہوتا ہے۔ اس کی خوراک بہت مہنگی ہوتی ہے۔ یوں تو ہمارے مویشی جنگل میں خود ہی چر پھر کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں لیکن قربانی کے بیل کو تیار کرنے کے لیے اچھی خوراک کھلانا پڑتی ہے۔ اس میں دودھ، گھی، ڈرائی فروٹ، کھل بنولہ، ونڈا، باڑے اور آٹا وغیرہ شامل ہے۔ یہ ساری اشیا بازار سے خریدنا پڑتی ہیں جس کے لیے ان 2 سالوں کے اندر اچھی خاصی رقم خرچ ہوتی ہے۔
دوسری جانب جنگل میں مویشیوں کو کھلا چھوڑ دینا بھی خطرات سے خالی نہیں ہے۔ پہلے تو صرف تیندوے کا خطرہ ہوتا تھا جو ہمارے مویشیوں کو بے دردی سے مار کھاتا تھا۔ مگر اب جنگلی جانوروں سے زیادہ انسانوں سے خطرہ ہے۔ آئے روز ہمارے علاقے سے بکریاں، گائے، بیل اور بھینس چوری ہونے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے مویشیوں کو گھر ہی میں رکھنے اور وہیں کھلانے، پلانے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارے اخرجات میں 50 سے 60 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
ہر سال ایک یا 2 بیل فی گھرانہ عید قرباں کے موقع پر فروخت کر کے ہم اپنا گزر بسر کرتے تھے، لیکن اب اخراجات میں اضافے اور پیسے والے لوگوں کے اس کام میں آنے کے باعث ہماری کمائی نقصان کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ 2 سال تک محنت کے بعد حساب لگایا جائے تو فی بیل 10 ہزار روپے بھی نہیں بچتے۔
گزشتہ 20 برسوں سے عید قرباں پر قصائی کی خدمات فراہم کرنے والے حاجی محمد طفیل نے بتایا کہ بڑی عید کسی بھی قصاب کے لیے روزگار کی بارش لے کر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال بھر ہر قصاب کو اس موقع کا انتظار ہوتا ہے تاہم گزشتہ 2 برسوں میں اس کام میں کچھ کمی آئی ہے۔ کیونکہ مہنگائی کے باعث بہت سے لوگ قربانی کرنے کی استطاعت سے محروم ہو رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ رواں برس اگر قصائیوں کے ریٹ کی بات کی جائے تو عید کے پہلے دن گائے کی قربانی کا ریٹ 20 ہزار روپے تک ہوتا ہے جبکہ بکرے کی قربانی کا ریٹ 10 ہزار روپے ہوگا۔ دوسرے اور تیسرے روز ریٹ میں کمی آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن کم لوگ قربانی کرتے ہیں تو انسان بہ آسانی وقت نکال سکتا ہے۔
پرانے قلعے میں گزشتہ 10 برس سے چھریاں اور ٹوکے تیز کرنے اور فروخت کرنے والے یاسر شفیق نے بتایا کہ ہمارا کام تو قربانی کی عید پر ہی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ورنہ سارا سال چھریاں، ٹوکوں والا کام ٹھنڈا ہی رہتا ہے۔ بڑی عید آتے ہی آخری 10 سے 15 دنوں میں رش بڑھنے لگتا ہے۔ یہ رش چاند رات تک جاری رہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اس موقع پر اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔
ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ محمد عثمان نے عید قربان پر کاروبار کے حوالے سے بتایا کہ سال بھر کے عام دنوں کے مقابلے میں قربانی کی عید پر کام بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ عام دنوں میں تو سامان کی منتقلی کا کام ہوتا ہے لیکن عید کے دنوں میں اور خاص طور پر آخری ہفتے میں اتنا کام آجاتا ہے کہ جو ہم ایک مہینے میں کماتے ہیں، وہی ہم عید پر ایک ہفتے میں کما لیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پٹرول کی قیمت کے لحاظ سے کرایہ لگایا جاتا ہے۔ باقی مجموعی طور پر عید پر کام کافی زیادہ ہونے کی وجہ سے کمائی بھی اچھی ہو جاتی ہے۔