اسلام آباد

قربانی کے جانوروں کی کھالیں ڈالر کمانے کا ذریعہ کیسے بنتی ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مسلم دنیا کی طرح پاکستان میں عید الاضحی کی تیاریاں تیزی سے جاری ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں مرکزی منڈی کے علاوہ شہر کی مستقل مویشی منڈیوں کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر بھی کئی سو منڈیاں لگائی گئی ہیں جہاں لوگ بڑی تعداد میں قربانی کے جانور فروخت کررہے ہیں۔
عیدالاضحی ایک مذہبی تہوار ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی بھی ہے۔ اس سرگرمی سے زراعت کے مویشی پروری سے وابستہ افراد کو سب سے پہلے فائدہ ہوتا ہے۔ اور وہ اچھے داموں پر اپنے جانور قربانی کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جو جانور عام طور پر قصاب کٹائی کے لیے خریدتے ہیں ویسا ہی جانور عید کے دنوں میں 50 سے 100 فیصد اضافہ سے اس سے زائد قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔ اور جانوروں کی فروخت سے زیادہ تر پیسہ دیہی علاقوں میں منتقل ہوتا ہے۔
جانوروں کی شہروں میں فروخت کے ساتھ چارے اور جانوروں کی کٹائی کے لیے آلات کی صنعت میں تیزی دیکھی جاتی ہے۔ میں گزشتہ کئی سال سے ایک قربانی کے آلات فروخت اور دھار لگانے والے کے پاس جاتا ہوں۔ دوران گپ شپ پتہ چلا کہ عیدالاضحی کے 10دنوں میں ان کی آمدنی ایک طرف اور پورے سال کا کاروبار ایک طرف ہوتا ہے۔ قربانی کے لیے چھریاں، بغدے، کلہاڑی اور دیگر سامان کے علاوہ کھجور کے پتوں سے بنی چٹائیاں، ٹوکریاں بھی بڑے پیمانے پرفروخت ہوتی ہیں۔
قربانی کے بعد بھی عید الاضحی کی معاشی سرگرمی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے بعد جانوروں کی کھالوں سے ایک نئی معاشی سرگرمی کا آغاز ہوتا ہے۔
پاکستان میں قربانی کی کھالیں دینی مدارس، فلاحی اسپتالوں، دیگر انسانی ہمدری کی بنیاد پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھا۔ مگر گزشتہ چند سال سے چمڑے کی صنعت زبوں حالی کا شکار ہوگئی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ سید شجاعت علی کا کہنا ہے کہ سال 2017-18 میں گائے کی ایک کھال جو 4ہزار روپے یا اس سے زائد میں فروخت ہوتی تھی، اس کی قیمت کم ہوکر 500 روپے رہ گئی تھی۔ اور اس کے بعد سے پاکستان کی چمڑے کی صنعت مسلسل زبوں حالی کا شکار رہی۔ صنعت کاروں نے بھی اس زبوں حالی میں اپنی صنعت پر توجہ دینے، نئے فیشن ڈیزائین کو اپنانے اور اپنی مشینری کو جدید کرنے کے بجائے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری شروع کردی جس کی وجہ سے ملک میں صنعت کاری کی شرح کم ہوئی ہے۔
مقامی صنعت کاروں کی عدم توجہی کی وجہ سے پاکستان جو کہ چمڑے کی عالمی منڈی کا ایک اہم اور نمایاں رکن تھا۔ اور چمڑے سے بنی مصنوعات کی برآمد کے حوالے سے دنیا کے 10بڑے ملکوں میں شامل ہوتا تھا جبکہ پاکستان سے کی جانے والی 5 بڑی برآمدی صنعتوں میں سے ایک تھا۔ اب اس کی وہ اہمیت نہیں رہی ۔ یہ کہانی اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان کی برآمدات کا ایک ارب ڈالر کلب کا رکن اب چند کروڑ ڈالر ہی کماتا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران پاکستان سے ٹینری شدہ چمڑے کی برآمد 16 کروڑ ڈالر سے زائد رہی جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں یہ برآمدات 18 کروڑ 79 لاکھ ڈالر تھیں۔ اسی طرح چمڑے سے بنی مصنوعات جس میں چرمی ملبوسات، چمرمی دستانے اور دیگر اشیا شامل ہیں کی مجموعی برآمد 57 کروڑ 69لاکھ ڈالر رہی جبکہ گزشتہ سال یہ برآمدات 58 کروڑ 98 لاکھ ڈالر تھیں۔ اسی طرح چرمی جوتوں کی برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا اور یہ 15 کروڑ 58 لاکھ ڈالر سے زائد رہیں جبکہ گزشتہ سال یہ برآمدات 13 کروڑ 87 لاکھ ڈالر تھیں۔ مالی سال 2021 مین ایک ارب ڈالر کی برآمدات ہوئی تھیں جبکہ مالی سال 2020 میں یہ 85 کروڑ ڈالر رہ گئی تھیں۔
آج سے 5 سال پہلے تک پاکستان کا چمڑے کی بین الاقومی صنعت میں کلیدی کردار ہوتا تھا۔ چمڑے سے بنی ہائی فیشن مصنوعات، چمڑے کے دستانے ورکنگ دستانے یہاں بہت اچھے بنتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جدیدت کو اپنایا نہیں ماڈرنائزیشن کی جانب نہیں گئے۔ ہمارے مقابل ملکوں میں لیدر کی صنعت کو تیزی سے ترقی دلائی گئی، مشینری اور اسکل لیبر فورس فراہم کی گئی، فیشن کے اندر بہت کام کروایا گیا ، دنیا کی طلب کے مطابق اپنی صنعت کو نئے انداز میں ڈھالا گیا۔
دنیا بھر میں 23 ارب اسکوائر فٹ چمڑے کی تجارت ہوتی جس کی مالیت ڈالر میں 144 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ بھارت جہاں گوشت نہیں کھایا جاتا ہے دنیا کو چمڑہ برآمد کرنے والے 5بڑے ملکوں میں شامل ہوگیا۔ ایک طرف پاکستان سے چمڑے کی برآمدات گھٹ رہی ہیں، دوسری طرف بھارت تیزی سے چمڑے کی مارکیٹ پر چھا رہا ہے۔ بنگلہ دیش نے بھی چمڑے کی صنعت میں اپنا لوہا منوانا شروع کردیا ہے۔ اور اب بنگلہ دیش سالانہ 10 ارب ڈالر مالیت کے چمڑے کی مصنوعات برآمد کرے گا۔
شجاعت علی کہتے ہیں ‘چمڑے کی صنعت کی زبوں حالی کی ایک اور وجہ کھالوں کی درست دیکھ بھال نہ ہونا ہے۔ حکومت نے امن و امان کی بنا پر قربانی کے جانوروں کی کھالوں کو گھر گھر جاکر جمع کرنے پر پابندی عائد کردی ہے جس کی وجہ سے گھروں میں پڑے پڑے کھالوں کی ایک بڑی تعداد ضائع ہوجاتی ہے۔ کیونکہ گھر والے جنہوں نے قربانی کی ہے، انہیں کھال کی حفاظت کی نہ سمجھ اور نہ ہی پرواہ ہوتی ہے۔ اب یہ کھال ان کے لیے بوجھ ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ قوم کے لیے ایک عظیم سرمایہ کاری ہوتی ہے۔
پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین امان اللہ خان کا بھی کہنا ہے کہ اناڑی قصائیوں کی وجہ سے کھالوں کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ اور جو کھالیں ان تک پہنچتی ہیں ان کی حالت بہت خراب اور خستہ ہوتی ہے۔ اول تو ان کھالوں کو جانوروں سے الگ کرتے وقت کسی قسم کی احتیاط کی نہیں جاتی ہے جس پر کئی مقامات پر کٹ لگ جاتے ہیں۔ یوں کھال کی قیمت گر جاتی ہے۔ اس کے بعد کھال کو محفوظ بنانے کی بجائے اسے سڑنے کے لیے ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے۔ حالانکہ کھال کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ اسے فوری طور پر نمک لگا کر ٹھنڈے اور ہوادار مقام پر رکھا جائے۔
اس کے علاوہ لمپنی اسکن بھی جانوروں کے چمڑے کو تباہ کرہی ہے۔ لمپی اسکن سے چمڑے کی صنعت کونقصان ہورہا ہے۔ ٹینرز اس حوالےسے کہتے ہیں: جانور تو ٹھیک ہوجاتے ہیں ان کی کھال کو رخم اور پھوڑے نقصان پہنچا چکے ہوتے ہیں۔ کھال کو ٹینری کے عمل سے گزار کر پتہ چلاتا ہے کہ لمپی اسکن بیماری کھال میں پہلے ہی سوراخ کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال جانوروں کی بڑی تعداد سیلاب اور بارشوں سے بھی متاثر ہوئی ہے۔

جانور کی ایک ایک کھال پاکستان کے لیے کئی کئی ڈالر لاسکتی ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان میں گائیں، بیل، بھینس، بکری اور بھیڑ کی کھالوں سے مصنوعات تیار کی جاتی تھیں مگر اب یہ صنعت گرواٹ کا شکار ہے۔
ملک میں اچھی کھالوں کی فراہمی کے لیے شجاعت علی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ملک میں عالمی معیار کے مطابق مویشی پروری کو اپنایا جائے، گوشت کے لیے پالنے والے جانوروں کے بڑے بڑے فارم بنائے جائیں۔ جہاں گوشت انسانی خوراک اور جانوروں کی کھال انسان کے لباس کے لیے مناسب مقدار میں دستیاب رہے۔ پاکستان میں آرگنائز کیٹل فارمننگ نہ ہونے کے برابر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے 80 فیصد لوگ گوشت خور ہیں۔ مگر وافر مقدار میں صنعت کو کھالیں نہیں ملتی ہیں۔ کیٹل فارمننگ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
کھالوں اور چمڑے کی صنعت کی زبوں حالی کی وجہ سے پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن جو ایک فعال ادارے کے طور پر کام کرتا تھا، اب تقریبا غیر فعال ہی ہوکر رہ گیا ہے۔ تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ریسرچ رپورٹ میں ڈیٹا سال 2008 تک کا دستیاب ہے۔ جبکہ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے ایسوسی ایشن نے اپنا نیوز لیٹر بھی جاری نہیں کیا ہے۔
پاکستان میں چمڑے کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے حکومت کو ایک طویل مدتی پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔ جس میں چمڑے کی صنعت کے خام مال یعنی کھالوں کی دستیابی کو مرکزی اہمیت دی جائے اس کے علاوہ عید پر میڈیا میں یہ مہم بھی چلائی جائے کہ قربانی کی کھالیں ملکی معیشت کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ کھالوں کو ماہر قصاب کے ذریعے اتروائیں تاکہ ان پر کٹ لگنے کی وجہ سے ان کی قیمت کم نہ ہو۔ اس کے ساتھ کھالوں کو اتارنے کے بعد محفوظ طریقہ سے رکھنے کی بھی آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جانور کی ایک ایک کھال ملک کے لیے کئی کئی ڈالر کما سکتی ہے۔ اور اس وقت ملک کو ڈالرز میں کمائی کی جنتی ضرورت ہے ملکی تاریخ میں شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔

متعلقہ خبریں