بلوچستان میں کون کون سے سیاحتی مقامات موسم گرما میں گھومے جاسکتے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)رقبے کے اعتبار سے ملک کا نصف صوبہ بلوچستان قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ اس خطے کو خدا نے تراشے ہوئے سنگ لاخ پہاڑوں، بل کھاتی گھاٹیوں، شیشم سے بہتے چشموں، جھرنوں اور جھیلوں، چندن سے ساحلوں، آسمان سے سمندر اور خوبصورت جنگلات سے کچھ اس طرح نوازا ہے کہ یوں گمان ہوتا ہے، جیسے فطرت نے سارا حسن بلوچستان کے حصے میں ڈال دیا ہو۔ موسم بہار کے بعد آنے والی گرمی میں سیاحوں کی بڑی تعداد سہانے موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں کا رخ کرتی ہے۔ ایسے میں اکثر اوقات سیاح اس بات سے پریشان ہوتے ہیں کہ گرمیوں میں بلوچستان کی کون کون سے مقامات ہیں جنہیں گھوما جا سکتا ہے۔

بلوچستان میں یوں تو بے پناہ سیاحتی مقامات ایسے ہیں جن کا جمال انسان کو ششدر کر دیتا ہے۔ سب سے پہلے اگر بات کی جائے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی تو یہاں اکثر درجہ حرارت 30 سے 35 ڈگری تک ہی رہتا ہے جس کی وجہ سے موسم گرما میں کوئٹہ گھومنے کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔ شہر میں تو گھومنے پھرنے کے بے شمار مقامات ہیں جن میں سر فہرست کوہ مہرداد کے دامن میں واقع ڈیم ہے جہاں چشموں سے بہتے پانی کی آواز اور پہاڑوں کی چوٹیوں کو چومتے بادل دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کرخسہ ڈیم اور سن سیٹ پوائنٹ بھی شام کے وقت گھومنے کے لیے ایک اچھی جگہ ہے۔
کوئٹہ سے 10 کلو میٹر کی مسافت پر ہنا اوڑک اور ہنا جھیل واقع ہیں جس کی خوبصورتی کا کوئی ثانی نہیں۔ بل کھاتے پہاڑوں کے درمیان سفر کرنے کے بعد ہنا جھیل آتی ہے۔یہ انگریز دور میں پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہاں آج بھی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ اس مصنوعی جھیل میں بچوں کی تفریح کے لیے منی پارک اور کھانے پینے کا انتظام بھی موجود ہے۔ جب آپ ہنا جھیل دیکھ لیں تو اس سے چند کلو میٹر کی مسافت پر ہنا اوڑک واقع ہے جہاں کے بہتے چشمے اور سیب کے باغ سیاحوں کو شاداب کر دیں گے۔ ہنا اوڑک سے ایک کلو میٹر پر ولی تنگی ڈیم بھی گھومنا نہ بھولیے گا۔

ضلع کوئٹہ کی تحصیل شابان بھی گرمیوں میں گھومنے پھرنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ دراصل یہ مقام وادی کوئٹہ سے 36 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔اس کا سارا راستہ خوبصورت پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے ۔ شابان میں بہتے جھرنے سیاحوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ جگہ کیمپنگ کے لیے بہترین تصور کی جاتی ہے۔

وادی کوئٹہ سے 125 کلو میٹر کی مسافت پر وادی زیارت واقع ہے۔ اس علاقے کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ بلوچستان آنے والے پر سیاح کی فہرست میں زیارت کا سفر لازمی ہوتا ہے۔ زیارت میں گھومنے پھرنے کے بے شمار مقامات ہیں۔ شہر کے وسط میں قائد اعظم ریذیڈنسی موجود ہے جو آپ کو قائد اعظم کے دور میں لے جائے گی۔ اس کے علاوہ تاریخی مقامات میں پشتو زبان کے مشہور شاعر خرواری بابا کا مزار بھی اہل ذوق کے لیے کسی پرکشش ہے۔ مزید براں سنڈیمن تنگی اور ڈومیارہ یہاں شفاف پانی کے شیشے جیسے چشمے سیاحوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

زیارت کے علاوہ بلوچستان کے شمالی علاقوں میں قلعہ عبداللہ، توبہ اچکزئی، مسلم باغ، ژوب، شیرانی، لورالائی سمیت کئی شہریوں میں چھوٹے بڑے سیاحتی مقامات موجود ہیں۔
بات کی جائے اگر بلوچستان کے بلوچ آبادی والے علاقوں کی تو ان علاقوں میں گرمی کی شدت ذرا زیادہ ہے لیکن دریائے بولان کا ٹھنڈا پانی اس گرمی کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ صوبے کے سیاحتی مقامات کی بات ہو اور اس میں ضلع بولان کے علاقے پیر غائب کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ وادی کوئٹہ سے 90 کلو میٹر کی مسافت پر واقع پیر غائب ایک ایسا مقام ہے جہاں پہاڑ کو چیرتا ہوا ٹھنڈے پانی کا چشمہ گرمی کی شدت کو کم کر رہا ہے۔ ہر سال اس مقام پر ہزاروں سیاح آتے ہیں اور انمول یادوں کا خزانہ سمیٹ کر لوٹ جاتے ہیں۔

قدرتی حسن کی بات ہو اور مولا چٹوک کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 405 کلو میٹر کی مسافت پر مولا چٹوک واقع ہے۔ یہاں فطرت نے قوس قزح کے تمام رنگ زمین پر سجا دیے ہیں۔ اس علاقے میں پہاڑوں اور چٹانوں سے بہتے جھرنے، آب شارون اور چشموں کے کئی رنگ ہیں۔ اس علاقے کی خوبصورتی بیان سے پرے ہے۔ ہر سال ملک بھر سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد مولا چٹوک آتی ہے۔