ہیومن مِلک بینک کیوں حرام ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)صوبائی وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے چند روز قبل سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹالوجی کراچی میں پاکستان کے پہلے شرعی اصولوں پر مبنی ہیومن مِلک بینک (رضاعی ماؤں کے دودھ بینک) اور ارلی چائلڈ ہڈ سینٹر کا افتتاع کیا تھا۔ اس مِلک بینک کو پاکستان کا پہلا شرعی اصولوں پر مبنی ہیومن مِلک بینک یونیسیف کے تعاون سے سندھ انسٹیٹیوٹ آف نیونیٹولوجی، کورنگی کراچی میں قائم کیا گیا جہاں سے ان بچوں کو رضائی ماؤں کا دودھ فراہم کیا جانا تھا جنہیں قدرتی طور پر ماں کا دودھ کسی بھی وجہ سے دستیاب نہیں ہوتا۔
مفتیان کی جانب سے اس حوالے سے فتویٰ سامنے آیا ہے جس کے مطابق ماں دودھ بینک کا قیام اور تجارت غیر شرعی ہے، مفتیان کی جانب سے قرار دیا گیا کہ اس دودھ سے حرمت رضاعت متاثر ہوگی رضاعی بہن بھائی کا اسلامی تصور دم توڑ جائے گا۔ عالمی تنظیم مجمع الفقہ الاسلامی نے 10 سال قبل انسانی دودھ کی خرید و فروخت کو متفقہ طور پر ناجائز قرار دیا تھا۔ فتوے کے بعد سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں قائم ہیومن مِلک بینک کا منصوبہ روک دیا گیا ہے۔
مفتی محمد زبیر کے مطابق موجودہ حالات میں خواتین کا دودھ جمع کر کے باقاعدہ ہیومن مِلک بینک قائم کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے اور اس کے ناجائز اور حرام ہونے کے کئی اہم ترین شرعی اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ جب کئی خواتین کا دودھ جمع کردیا جائے گا اور کوئی بچہ اس کو پیئے گا تو اس سے رضاعت والا رشتہ قائم ہو جائے گا، اب کس بچے نے کس خاتون کا دودھ پیا ہے؟ کتنے بچوں نے پیا ہے؟ کون سی خواتین مائیں بنی ہیں اور کتنے بچوں کی رضائی ماں بنی ہے؟ اس کا کوئی امتیاز اور راستہ موجود نہیں۔ اسی طرح انسانی دودھ کی خرید و فروخت کا دروازہ کھل جائے گا جو انسانیت کے اعزاز اور تکریم کے بھی خلاف ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں قائم ہیومن مِلک بینک کا منصوبہ روک دیا گیا ہے۔ مِلک بینک دارالعلوم کراچی سے فتویٰ حاصل کرکے قائم کیا گیا تھا علما و مذہبی طبقات کے اعتراض کے بعد دوبارہ فتوے کے لیے رجوع کیا گیا دارالعلوم کراچی سے دوبارہ فتویٰ جاری ہونے پر یہ منصوبہ روک دیا گیا ہے۔ مزید رہنمائی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرلیا ہے۔ ہیومن مِلک بینک کے ذریعے 34 ہفتے قبل پیدا ہونے والے بچوں کو دودھ دیا جانا تھا ایسے بچے بہت کمزور ہوتے ہیں اکثر ماؤں کا دودھ ناکافی ہوتا ہے۔ اوپر کا دودھ بیماریوں کا باعث بنتا ہے، بچوں کی زندگی بچانا مقصد تھا۔