سلامتی کونسل ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے طالبان حکومت پر زور دے، پاکستان کا مطالبہ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے زور دے کر کہا ہےکہ وعدوں کے باوجود طالبان حکومت نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سرحد پار دہشتگرد حملوں کو روکنے کے لیے ‘فیصلہ کن’ اقدامات نہیں کیے جس کے نتیجے میں سینکڑوں سویلین اور فوجی شہید ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے افغانستان کی صورتحال پر بحث کے دوران کہا کہ بین الاقوامی برادری، افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور خود افغانستان کے لیے اولین ترجیح افغانستان کے اندر اور باہر دہشتگردی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے متعدد بار طالبان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے حملوں کو ختم کرنے، اس کے جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنے، دہشتگرد گروپ کے جنگجوؤں کو پکڑنے اور پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کریں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے وعدوں کے باوجود اب تک کوئی بامعنی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے پاکستان کی سرحدوں کے قریب ہیں۔
پاکستانی سفیر نے 15 رکنی کونسل کو بتایا کہ سرحد پار حملے جاری ہیں، جن میں ٹی ٹی پی کے ساتھیوں کا ایک ایسا حملہ بھی شامل ہے جس سے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے متعدد چینی انجینیئرز ہلاک ہوئے تھے۔
منیر اکرم نے کہا کہ کچھ دہشتگرد گروہوں کو افغانستان کے اندر ملنے والے استثنیٰ کی وجہ سے افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی سنگین اور براہ راست خطرہ لاحق ہے۔
منیر اکرم نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ طالبان حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ ٹی ٹی پی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرے۔ انہیں پاکستان کے خلاف سرحد پار حملے کرنے سے روکا جائے۔ ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو غیر مسلح کیا جائے اور ٹی ٹی پی کی قیادت کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ملک میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے افغان عبوری حکام کے ساتھ مسلسل رابطوں کی حمایت کی ہے۔
دوحہ میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے طالبان کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے سفیر منیر اکرم نے بین الاقوامی برادری اور افغان عبوری حکومت دونوں کو ان کے مجموعی مقاصد کے بارے میں آگاہ ہونے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، ہم وہاں کبھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
پاکستانی سفیر نے یہاں افغان حکومت اور عوام کی حمایت میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری ان 23 ملین افغانوں کی مدد کرنے کی پابند ہے جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے اور افغانستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی بھی ذمہ داری عالمی برادری کی ہے جس میں قومی بینکاری نظام کی بحالی اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو بھی اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیوں کے بارے میں ’دنیا فکرمند ہے‘۔ انہوں نے مزید کہاکہ یہ پابندیاں بین الاقوامی قانون یا اسلام کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ اے آئی جی (افغان عبوری حکومت) سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم، کام اور دیگر انسانی حقوق کو یقینی بنائے گی۔
منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ نسلی، تاریخ، عقیدے، زبان اور ثقافت کا گہرا رشتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دینا پاکستان کی قومی مجبوری ہے۔ ہم ان مقاصد کے حصول کے لیے دوطرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر ہر سطح پر کام کرتے رہیں گے۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ روزا اوتون بائیوا نے کہا کہ دوحہ میں ہونے والا آئندہ اجلاس، جو اس فارمیٹ میں تیسرا اجلاس ہے، 9 دن بعد ہونے والا ہے اور طالبان نے کہا ہے کہ وہ اس میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ دوحہ میں اہم اسٹیک ہولڈرز مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے، ایک دوسرے سے آمنے سامنے بات کریں گے، بات چیت کے لیے اتفاق رائے کے اصولوں کو تقویت دیں گے اور افغان عوام کو درپیش غیر یقینی صورتحال کو کم کرنے کے لیے اگلے اقدامات پر اتفاق کریں گے۔
سیکرٹری جنرل نے متنبہ کیا کہ دوحہ اجلاس نے اہم توقعات پیدا کی ہیں جو کسی ایک اجلاس میں حقیقت پسندانہ طور پر پوری نہیں کی جا سکتیں‘۔
اوتن بائیوا نے مزید کہا کہ اگرچہ طالبان نے سیاسی استحکام برقرار رکھا ہے ، لیکن وہ خواتین پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ داخلی سیاسی جواز کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ انسانی امداد کے لیے 7 ارب ڈالر سے زیادہ فراہم کیے جا چکے ہیں لیکن افغانستان اب بھی بڑے پیمانے پر غربت کا شکار ہے‘۔