ایران پشاور میں مدفن ملکہ پری چہرہ کے مقبرہ کی بحالی میں دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ایران حکومت پشاور میں واقع پری چہرہ نامی ملکہ کے مقبرہ کی بحالی اور باغ کے احاطے میں لائبریری بنانا چاہتی ہے، جہاں دہائیوں سے دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث قبر کا نشان بھی مٹ چکا ہے۔
محکمہ اوقاف اور آثار قدیمہ کے ذرائع کے مطابق ایرانی سفارتخانے اور قونصیلٹ نے اس حوالے سے باقاعدہ حکام کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔ تاہم حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ آیا ایران کو مقبرے کی بحالی کی اجازت دینی ہے یا نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت خود اس تاریخی مقبرے کو بحال کرنا چاہتی ہے اور اس پر کام جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے عدالتی احکامات پر مقبرے کے احاطے سے تجاوزات ختم کرکے اسے تحویل میں لیا اور عدالتی حکم پر ہی بحال کررہی ہے۔ ’ایرانی حکام بدستور متعلقہ حکام سے اس حوالے رابطے میں ہیں تاہم حکومت ایران کے بجائے خود بحالی کو ترجیح دے رہی ہے‘۔
نادر شاہ افشار کون تھے؟
نادر شاہ افشار جنگجو بادشاہ تھے اور اکثر فتوحات میں ہی مصروف ہوتے تھے۔ وہ افشار خاندان کی بادشاہت کے بانی بھی تھے۔ 1736 سے 1747 تک ایران کے بادشاہ بھی رہے، جبکہ پری چہرہ نادر شاہ افشار کی محبوب اہلیہ تھیں، اسی وجہ سے ایران ان کے مقبرے کی بحالی میں خاصی دلچسپی لے رہا ہے۔
ایران مقبرے کی بحالی کے ساتھ باغ کے احاطے میں لائبریری بنانا چاہتا ہے جس میں تاریخی فتوحات اور نادر شاہ پر لکھی کتابیں رکھی جائیں گی۔
پری چہرہ کون تھیں اور مقبرہ کہاں واقع ہے؟
پشاور کے مصروف کوہاٹی بازار میں کمرشل عمارتوں کے درمیان ایک ویران خالی پلاٹ ہے جس کے مرکزی داخلے پر آویزاں بینر دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ خالی پلاٹ کسی زمانے میں شاہی باغ ہوتا تھا اور اس کے کونے میں اٹھارویں صدی کے مشہور جنگجو اور ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشان کی محبوب اہلیہ پری چہرہ سپرد خاک ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ پری چہرہ جنگجو تو نہیں تھیں لیکن بادشاہ کی محبوب اہلیہ ہونے کی وجہ سے فتوحات کے دوران ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔
تاریخ دانوں کے مطابق 1738 میں نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا، وہ قندھار سے سفر پر روانہ ہوئے اور اس طرح پشاور پہنچ گئے۔ اس وقت نواب ناصر خان پشاور کے حاکم تھے۔ حاکم پشاور نے نادر شاہ کا پرجوش استقبال کیا، اور اس طرح نادر شاہ نے چند روز تک پشاور میں قیام کیا۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ سفر کے دوران بادشاہ کی محبوب ملکہ پری چہرہ کی طبعیت ناساز تھی اور مزید سفر کے قابل نہ تھی۔ اس لیے نادر شاہ نے پری چہرہ کو حاکم پشاور کے سپرد کیا اورعلاج کرانے کا کہا۔
نادر شاہ کی فتوحات کے دوران پری چہرہ پشاور میں انتقال کرگئیں اور ان کی وصیت کے مطابق انہیں حاکم پشاور نے شاہی دربار کے سامنے ہی شاہی باغ میں سپرد خاک کردیا۔
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ نادر شاہ کو پری چہرہ کی وفات کی خبر دہلی میں ہی پہنچا دی گئی تھی، وہ جب وہاں سے فاتح لوٹے تو پشاور میں قیام کیا اور پری چہرہ کا مقبرہ بنوایا، ساتھ ہی 8 کنال باغ میں پھلدار درخت لگوائے اور خود واپس روانہ ہوگئے۔
’قبر کا نشان نہیں‘
وقت کے ساتھ شاہی باغ ویرانے میں تبدل ہوگیا اور دیکھ بھال نہ ہونے سے لوگوں نے تجاوزات کرنا شروع کر دیے جبکہ خالی احاطے میں گندگی اور ملبہ پھینکنے لگے، اس طرح تاریخی مقبرے کا نشان بھی ختم ہونے لگا اور کوئی اس پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔
مقبرے کی تاریخی اہمیت سے واقف پشاور کے ایک باسی تجاوزات کے خلاف عدالت پہنچ گئے اور مقبرہ حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، جس پر عدالت نے محکمہ اوقاف اور آثار قدیمہ کو طلب کیا تو بات آگے بڑھی اور سرکاری حکام حرکت میں آگئے۔
محکمہ اوقاف نے عدالتی حکم پر شاہی باغ کی صفائی کرائی اور مقبرے کی جگہ کی نشاندہی بھی کی۔ ساتھ ہی آثار قدیمہ کی جانب سے بحالی کا کام بھی شروع کردیا گیا اور مقبرے کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔
’حکومت پری چہرہ کے مقبرہ کی بحالی کررہی ہے‘
محکمہ آثار قدیمہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ محکمہ اوقاف نے باغ کو تحویل میں لے لیا ہے۔ جبکہ کچھ حصے پر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت اب اس کو مکمل بحال کررہی ہے۔ مقبرے کو بحال کرنے کے بعد اس کے احاطے کو باغ میں تبدیل کیا جائے گا، ایک کونے میں لائبریری جبکہ بیٹھنے کے لیے بینچز ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ باغ کی بحالی سے گنجان آباد شہری علاقے میں بیٹھنے کی جگہ میسر ہوگی۔