بچے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتےشوہر انتقال کر گئے لیکن ۔۔ گم ہونے والا بچہ 25 سال بعد گھر واپس کیسے پہنچا؟

مظفرآباد(قدرت روزنامہ)اپنا کوئی لاپتہ ہو جائے اور ایک دم سے مل جائے تو انسان کے کیا جزبات ہونگے بالکل ایسا ہی واقعہ پاکستان میں ہوا کہ ایک بیٹا 25 سال بعد ایک دم ہی اپنے گھر پہنچ گیا۔دراصل ماجرا یہ ہے کہ پاکستان میں آزاد کشمیر کے علاقے مظفرآباد میں ایک محمد شفیق نامی بچہ اپنے گھر سے بھاگ گیا تھا ، جی ہاں آپ نے بھی سوچا ہو گا کہ دوسرے بچوں کی طرح گھر والوں کی ڈانٹ کی طرح گھر چھوڑ کر بھاگا ہوگا لیکن ایسا نہیں۔محمد شفیق بچپن سے بول نہیں سکتے اور زہنی معذور بھی ہیں جبکہ گاؤں والے اسے تنگ کرتے اور اسکا مذاق اڑاتے تھے جس کی وجہ سے یہ سن 1996 میں گاؤں ہی چھوڑ کر چلا گیا ،گاؤں سے جانے کے بعد چکوال کے ضلع چوا سیدن شاہ میں ایک عبدالستار نامی شخص کے پاس پہنچے جس نے انہیں اپنے گھر میں رکھ لیا اور انہیں اپنے بچوں کی طرح رکھا اچھا کھلایا پلایا اور جوان کیا۔محمد شفیق کی والدہ محمد سرور کہتی ہیں کہ ہم نے اسے اسلام آباد رالپنڈی تک ڈھونڈا لیکن نہیں ملا تو تھانے میں ایف۔ آئی۔آر بھی کروا دی لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوا تو ہم نا امید ہو کر بیٹھ گئے۔ ساتھ ہی ساتھ کہتی ہیں کہ آج سے 40 سال پہلے میرے خاوند کا بھی انتقال ہوگیا وہ بھی بہت پریشان رہے تھے اور اسیی پریشانی میں ہی میرے خاوند کا انتقال ہو ا۔تو میں نے اپنے بچوں کا اکیلا پالا ہے اور اوپر سے میرا بچہ نہیں ملتا تھا تو کوئی مجھ سے پوچھے مجھ پر کیا قیامت ٹوٹتی تھی روز ہی۔یہاں یہ واضح کر دینا بہت ضروری ہے کہ جب یہ شخص گم ہوا تو یہ ایک بچہ تھا مگر اب جب گھر آیا تو داڑھی کے بال سفید ہونا شروع ہو گئے تھے اور یہ اب ایک مرد کے روپ میں گھر والوں سے ملا۔مزید یہ کہ 25 سال یہ زہنی معذور محمد شفیق چکوال کے رہائشی عبد الستار نامی شخص کے گھر رہ رہا تھا تو عبد الستار کے ایک قریبی رشتہ دارر جو کہ ایک سماجی کارکن ہے اور انکا نام ہے خرم شہزاد انہوں نے گھر بیٹھے کہا کہ آؤ ایک مرتبہ پھر فیس بک پر اس علاقے کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی جائے جو تحریر محمد شفیق کے ہاتھ پر لکھی ہوئی ہے یہ تحریر۔یہ تھی کہ “محمد شفیق منڈل مدار” جس سے انہیں معلوم تو تھا کہ یہ یہاں کا رہائشی ہے مگر یہ علاقہ نہیں مل رہا تھا کئی سالوں سے انہیں لیکن جب 25 سالوں بعد انہوں نے فیس بک پر اس علاقے کو تلاش کیا تو منڈل مدار کا چوک ا ور تحریک انصاف کے جلسے کی تصویر انہیں مل گئی جس کے بعد انہوں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ اب یہ شخص اپنے گھر کو چلا جائے گا ۔اور پھر سماجی کارکن خرم شہزاد نے پولیس کی مدد سے اس علاقے کا پتا لگایا اور پھر محمد شفیق کو اس کے بھائیوں کے حوالے کر دیا جس پر وہ اپنے بھائی کو گلے لگا کر بہت روئے اور 25 سالوں بعد گھر والوں کو یہ خوشخبری دی کہ ہمارا بھائی مل گیا تو جس پر انکی بہنیں اور ماں گھر کے دروازے پر پھول کے ہار لیکر اپنے معصوم بھائی کا انتظار کرنے لگیں بھائی کو اپنے درمیان پا کر پورا گھر ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔واضح رہے کہ محمد شفیق سمیت انکے 4 بھائی اور 3 بہنیں تھیں جو سالوں بعد بھائی وک اپنے درمیان پاکر یوں خوش تھیں کہ جیسے اب انہیں دنیا میں کچھ نہیں چاہیے اور سب کچھ مل چکا ہے انہیں۔ محمد شفیق کی والدہ محمد سرور کہتی ہیں کہ سب سے پہلے ہمارے معذور بچے کو جس نے بھی اتنے سال پالا اللہ پاک اسے کوئی غم نہ دے، لمبی زندگی دے اور اسکی ہر مراد پوری کرے۔