وہ سیاسی رہنما جو اپنی سیاسی جماعت چھوڑ کر ہیرو سے زیرو ہوگئے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں سیاستدانوں کا اپنی سیاسی جماعت چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرنا کوئی زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا، یہی وجہ ہے کہ ہر مرتبہ عام انتخابات سے قبل جوڑ توڑ شروع ہو جاتا ہے، بعض رہنما پارٹی چھوڑنے کے باعث ہیرو سے زیرو ہو جاتے ہیں جبکہ بعض کسی جماعت میں شامل ہونے سے زیرو سے ہیرو بن جاتے ہیں۔
اپنی سیاسی جماعت چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کا رواج 2011 کے بعد سے زیادہ دیکھنے میں آیا کہ جب مختلف سیاسی رہنما اپنی جماعتوں کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شامل ہوئے، تاہم بعض رہنما ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے اپنی نئی پارٹی بنائی یا آزاد ہوگئے تاہم وہ ہیرو سے زیرو ہوگئے۔
چوہدری نثار علی خان
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر ترین اور پارٹی کی سینیئر قیادت میں شامل چوہدری نثار علی 1985 سے 2013 تک رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے، 2018 میں چوہدری نثار علی خان نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، اور ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی پارٹی میں اتنے ہی سینیئر ہیں جتنے نواز شریف ہیں، جبکہ مریم نواز کے سامنے آکر پارٹی چلانے پر بھی ان کو اعتراض تھا۔
2018 میں چوہدری نثار علی رکن قومی اسمبلی تو منتخب نہ ہوسکے مگر پنجاب اسمبلی کی سیٹ انہوں نے جیت لی تاہم انہوں نے اپنے عہدے کا حلف تک نہ لیا۔
عام انتخابات 2024 میں بھی چوہدری نثار علی نے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑا تاہم اس مرتبہ پھر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔
پرویز خٹک
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیاستدان اور ماضی میں کئی حلقوں سے اپنے قریبی عزیزوں کو الیکشن میں کامیاب کرانے والے پرویز خٹک نے 2013 کے انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 2013 سے 2018 تک وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا رہے، جس کے بعد 2018 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انہیں وزیر دفاع کا قلمدان سونپ دیا گیا۔
سال 2023 میں پرویز خٹک نے پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ کر نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کا قیام عمل میں لایا تاہم عام انتخابات 2024 میں وہ رہنما جس کے 5 سے 7 رشتے دار رکن قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے تھے وہ اپنی نشست بھی ہار گیا، اور اس سب کے باعث انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
جہانگیر خان ترین
پاکستان میں ویسے تو بہت سے سیاست دان امیر ہوں گے تاہم جب کبھی خرچ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو جہانگیر ترین کا نام سرفہرست ہوتا ہے۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ رہنے والے جہانگیر ترین نے 2013 کا انتخاب پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑا اور کامیاب ہوئے، 2015 سے 2017 تک پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری رہے، تاہم 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔
سال 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں جہانگیر ترین نے ذاتی طور پر حصہ تو نہیں لیا تاہم آزاد اراکین کو پی ٹی آئی میں شامل کرانے اور اتحادیوں کو ساتھ ملا کر عمران خان کی حکومت بنانے میں جہانگیر ترین اور ان کے ہیلی کاپٹر نے بھرپور کردار ادا کیا، تاہم چینی اسکینڈل کی تحقیقات کے بعد عمران خان اور جہانگیر ترین کی راہیں جدا ہوگئی تھیں۔
عام انتخابات 2024 سے قبل جہانگیر ترین نے اپنی نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی تشکیل دی، جس میں پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کی بڑی تعداد نے شمولیت اختیار کی تاہم انتخابات میں دو حلقوں سے حصہ لینے والے جہانگیر ترین کسی ایک حلقے سے بھی کامیاب نہ ہوسکے اور بالآخر انہوں نے بھی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی۔
محمود خان
پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور رہنما محمود خان جو کہ 2018 کے عام انتخابات میں رکن خیبرپختونخوا اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور انہیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بنایا گیا۔
2023 میں محمود خان نے پی ٹی آئی کو چھوڑ کر پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز میں شمولیت اختیار کرلی، اور عام انتخابات 2024 کے نتیجے میں وہ اپنی نشست ہی ہار گئے اور رکن صوبائی اسمبلی تک نہ منتخب ہوسکے۔
جاوید ہاشمی
پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق سینیئر رہنما، نواز شریف کے قریبی ساتھی اور پارٹی کے لیے جیل جانے اور دیگر قربانیاں دینے والے جاوید ہاشمی نے 2011 میں ن لیگ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تاہم 2014 میں پی ٹی آئی چھوڑ دی اور کچھ عرصے بعد پھر سے ن لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔
عام انتخابات 2018 میں ن لیگ نے جاوید ہاشمی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا جس پر انہوں نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا، جبکہ 2024 کے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر سے جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی امیدوار کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کرتا ہوں، 2018 میں اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے ساتھ اور ن لیگ کے مخالف تھی، اور اب 2024 میں ن لیگ کے ساتھ اور پی ٹی آئی کے مخالف ہو گئی ہے۔