تربت دھرنا، سڑکوں پر بیٹھنے کا شوق نہیں، ہمارے پیارے ہمیں لوٹا دیئے جائیں، لاپتہ افراد کے لواحقین کی پریس کانفرنس


تربت(قدرت روزنامہ)ڈی سی آفس کے گیٹ کے سامنے دھرنا دینے والے لاپتہ افراد کے لواحقین نے پیر کی شام پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 26جون کو امن واک اور 27 جون کو ریلی نکالیں گے،یکم جولائی کو ضلع کیچ میں ہڑتال کا اعلان کرتے ہیں،لاپتہ افراد کے لواحقین نے دھرناگاہ سے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے 2 جون 2024ء کو بلیدہ سے تربت تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کیا اور بعد میں ڈپٹی کمشنر کیچ کے آفس کے سامنے پانچ دنوں تک دھرنا دیالیکن 6 جون کو ضلعی چیئرمین، ڈپٹی کمشنر کیچ، اے ڈی سی اور اے سی تربت کی یقین دہانی سے تین دن کی مہلت پر ہم نے دھرنے کو موخر کردیا،مگر ضلعی چیئرمین اور ڈپٹی کمشنر کی یقین دہانی کے باوجود ہمارے مطالبات پر کوئی پیش رفت نہ ہوا انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہمارے لاپتہ پیارے ہیں، جس پر مجبوراً 17جون 2024ء بروز عید کو ہم نے دوبارہ احتجاجی سلسلے کو جاری کرتے ہوئے ایک ریلی نکالا اور پھر دھرنے کی صورت میں 4 دنوں تک شہید فدا چوک پر دھرنا دیکر بیٹھ گئے لیکن پیشرفت نہیں ہوسکا پھرہم نے 20 جون 2024 کو یہ دھرنا شہید فدا چوک تربت سے ڈپٹی کمشنر کیچ کے آفیس کے سامنے منتقل کیا جو تاحال جاری ہے لیکن مقتدرہ کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی،بلوچستان میں ریاستی اداروں کی جانب گزشتہ کئی سالوں سے نوجوانوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے انہیں لاپتہ کیا جا رہا ہے، آئے روز تعلیمی اداروں، چوراہوں اور گھروں سے نوجوانوں کواٹھانے اور جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ جاری ہے،لوگوں کو ماورائے آئین وقانون اٹھانے سے یہاں کے لوگوں اور ریاست کے درمیان ایک خلیج پیدا ہورہاہے جو مزید گہرا ہوتا جارہاہے، ریاست اور ریاستی اداروں کو اگر کسی شخص کا ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث سمجھتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی کاروائی کرکے ان کے کے وارنٹ گرفتاریاں جاری کر کے انہیں عدالتوں میں پیش کریں، مگر اس طرح غیر قانونی و غیر انسانی طریقے سے ان کو غائب کرکے لاپتہ کرنا ان کے خاندانوں کو اذیت میں مبتلا کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، کیونکہ جن بے گناہ نوجوانوں کو اٹھاکر اذیت دیکر پھر چھوڑا جاتاہے وہ انسان بننے کے قابل نہیں رہتے بلکہ نیم پاگل ونیم انسان بن جاتے ہیں اور کئی نوجوان پھر خودکشی کرتے ہیں جبکہ اکثر وبیشتر نوجوان اٹھائے جاتے ہیں تو شک و شبہ کی بنیاد پر اٹھائے جاتے ہیں اگر چہ انہیں بعدمیں چھوڑا جاتاہے لیکن اذیت ناک سفر کے بعد وہ ذہنی وجسمانی حوالے سے ایبنارمل بن جاتے ہیں، ہمارے مطالبات بالکل سادہ ہیں اور آئین وقانون کے دائرے میں ہیں،ہمارے کوئی سیاسی عزائم نہیں، یہاں جتنے لوگ خاندان بیٹھے ہیں وہ لاپتہ افراد کے ہی لواحقین و خاندان ہیں جو صرف اور صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پہ در بہ در ہیں،ہمیں سڑکوں پر بیٹھنے کابھی شوق نہیں بلکہ اگر ہمارے پیارے آج ہمیں لوٹا دیئے جائیں ہم آج ہی یہاں سے اٹھیں گے،یہاں بیٹھنے والوں میں تِراسی سالہ جان محمد کی والدہ بی بی شراتون ہیں جو اپنی کمزوری وناتوانی اور بیماریوں کے باوجود اپنے پیارے بیٹے کی بازیابی اور نواسوں کی ترستی آنکھوں کا درد لیے بلیدہ سے سفر کرکے آئی ہیں انکے ساتھ انکے تین نواسے ونواسیاں ہیں، بیٹھنے والوں میں 70سالہ بزرگ واجہ میار ہیں جو ایک مزدور ہیں جنکے کمسن بیٹے فتح میار کو اٹھایاگیاہے جنکا تعلق بلیدہ سے ہے،فتح میار پڑھنا اور آگے بڑھنا چاہتے تھے اور شام کو اپنے گاؤں میں انگلش لینگویج سینٹر چلارہے تھے،بیٹھنے والوں میں کلاہو تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والے نثار کریم اور شے کہن تربت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر رفیق کے خاندان کے افراد بھی موجود ہیں، مسلم کی ڈیڑھ سالہ بہن بانڈی بھی بھائی کی تلاش میں اس تپتی دھوپ میں اس دھرنے میں موجود ہیں، اسی طرح پیدارک کے دونوجوان سمیر اور میران کے اہلخانہ اور آپ سر تربت سے لاپتہ جہانزیب فضل کے خاندان موجودبھی موجودہیں، یہ تمام خاندان وہ خاندان ہیں جنکا کسی سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں اور نہ ان کے سیاسی عزائم ہیں،ہاں البتہ سیاست ایک مقدس پیشہ ہے جسکا انکار نہیں کیا جاسکتا اس دوران جن طلبہ تنظیموں اور سیاسی تنظیموں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے یا کررہے ہیں ہم انکے مشکورہیں اور جن سیاسی جماعتوں اور نمائندوں نے چھپ کا روزہ رکھاہے اُن سے ہمیں شکایت بھی ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں بھی آئین وقانون کی بات کررہے ہیں اور ہم بھی اسی آئین وقانون کی راہ پر گامزن ہیں،ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر ہمارے پیاروں نے کوئی جرم کیا ہے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اگر وہ مجرم نہیں تو انہیں رہا کیا جائے،اگر یہ سب کرنے کیلئے ہمارے آئین وقانون نافذ کرنے …