خیبر پختونخوا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ، عوام وزیر اعلی سے کیا چاہتے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عید قربان پر لوگ قربانی گوشت تقسیم کرنے کے بعد مزیدار پکوانوں اور بار بی کیو پر ہاتھ صاف کر رہے تھے وہیں پشاور کے رہائشی فضل خان بجلی لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج میں مصروف تھے، فضل خان پشاور کے علاقے تکہ توت کے رہائشی ہیں، جو دیگر علاقہ مکنیوں کے ساتھ عید کی چھیٹوں کے دوران بجلی کی طویل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف سڑکوں پر سرگرمِ احتجاج رہے۔
احتجاج سے بات نہیں بنی تو گرڈ اسٹیشن پہنچے
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے فضل خان نے بتایا کہ ان کے علاقے میں معمول کے مطابق 6 سے 8 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے لیکن عید کے دوران بجلی مکمل طور پر غائب ہوگئی، جس سے اہل علاقہ کی پریشانیاں بڑھ گئی اور قربانی کا گوشت خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ عید کے روز بھی وہ احتجاج کرتے رہے اور جب وزیر اعلی علی امین گنڈاپور ڈی آئی خان میں گرڈ اسٹیشن پہنچے اور بجلی بحال کی تو انہوں نے بھی گرڈ اسٹیشن کا رخ کیا۔ ‘جب ہم ہجوم کی شکل میں گرڈ اسٹین پہنچے تو اندر جانے میں آسانی ہوئی اور اندر جا کر دیکھا تو بٹن بند تھا۔‘
فضل خان کے مطابق گرڈ پر موجود پیسکو حکام بھی بند بٹن اور لوشیڈنگ سے حوالے سے مظاہرین کو مطمئن نہیں کرسکے جس کے بعد انھوں نے خود بجلی بحال کر دی۔ ’میں باقاعدگی سے بل ادا کرتا ہوں لیکن ہمارا علاقہ مسلسل لوڈشیڈنگ کا شکار ہے، بٹن آن کرنے کے بعد میں نے گھر فون کرکے پوچھا تو بجلی آگئی تھی، جس کے بعد ہم وہاں سے واپس گھر آگئے۔‘
چند گھنٹوں کے لیے بجلی آئی لیکن رات پھرغائب
فضل خان نے بتایا کہ گرڈ سے بجلی بحالی کے بعد چند گھنٹوں تک بجلی کی فراہمی جاری رہی لیکن رات کو پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا اور رات بھر بجلی کی آنکھ مچولی جا ری رہی، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے باعث لوگوں کے پاس قربانی کا گوشت خراب ہوا، ’لوڈشیڈنگ کے باعث ہماری عید کا مزا بھی خراب ہوا اور چھیٹاں بھی احتجاج کی نذر ہوگئیں۔‘
گرڈ پر چوکیداری کی ضرورت ہے
پشاور کے رہائشی افضل احمد بھی رحمان بابا گرڈ پر جا کر بجلی بحال کرنے والے مظاہرین میں شامل تھے، ان کے مطابق گرڈ پر جا کر بٹن آن کرنے سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ختم ہونے والا نہیں، پر ہجوم مظاہرین کے سامنے واپڈا ملازمین خاموش تھے لیکن ان کے واپس جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی بجلی پھر بند کر دی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ وزیرا علی علی امین بھی خود گرڈ اسٹیشن پہنچے تھے لیکن مسلۂ جوں کا توں ہے، شاید اب علی امین گنڈاپور کو گرڈ اسٹیشن پر چوکیداری دینے کی ضرورت ہے۔ افضل نے بتایا کہ ایک بار گرڈ پر جانے سے چند گھنٹوں کے لیے بجلی بحال ہوتی ہے لیکن لوڈشیڈنگ کم یا ختم نہیں ہو رہی جو بہت بڑا مسئلہ ہے، اس معاملے پر وفاق کو بھی صوبے کے لوگوں پر ترس کھانا چاہیے۔
بجلی کی زبردستی بحالی سے کیا لوڈشیڈنگ کم ہوئی؟
خیبر پختونخوا میں گرڈ اسٹیشنوں پر احتجاج موجودہ دور حکومت میں ہی شروع نہیں ہوئے بلکہ پی ٹی آئی کے گزشتہ دور حکومت میں بھی یہی صورت حال تھی لیکن اس بار وزیرا علی خود گرڈ اسٹیشن پہنچے اور بٹن آن کرکے بجلی بحال کی، جس کے بعد پشاور میں بھی لوگ گرڈ اسٹیشنوں کا رخ کیا۔
پشاور کے رہائشی شبیر احمد کے مطابق ان احتجاجی مظاہروں سے کچھ خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ ’وقتی طور پر چند گھنٹوں کے لیے بجلی بحال ہوتی ہے لیکن پھر اس سے بھی بدتر صورت حال کا سامنا ہوتا ہے، ان کے مطابق بجلی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ عید کی چھیٹوں کے دوران بدترین لوڈشیڈنگ تھی-‘
’لوڈشیڈنگ سیاسی مسئلہ نہیں ہے‘
سینئر صحافی عارف حیات کے مطابق بجلی لوڈشیڈنگ علی امین کی حکومت کے لیے بھی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ صوبے میں گرڈ کی سیکیورٹی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ گرڈ اسٹیشنز میں مسلسل پر ہجوم مظاہرین کے داخلے اور زبردستی بجلی بحالی سے سیکیورٹی کے مسائل لاحق ہوگئے ہیں۔
عارف حیات کے مطابق لوڈشیڈنگ سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ صوبے سمیت ملک کو بجلی کا بحران درپیش ہے جبکہ ٹرانسمیشن لائنیں بھی بوسیدہ ہونے کے باعث بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ایشو ہے، لوڈشیڈنگ کا مسئلہ زبردستی بجلی آن آف کرنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے وفاق کے ساتھ بیٹھنا ہو گا اور بجلی کی چوری کے خاتمے کے لیے بھی وفاق کا ساتھ دینا ہو گا۔
خیبر پختونخوا میں کتنی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے؟
پیسکو حکام کے مطابق خیبر پختونخوا میں 13 سو سے زائد گرڈ اسٹیشنز ہیں، جنہیں لائن لوسز کے حوالے سے مختلف کیٹگری میں تقسیم کیا گیا ہے اور اور ہر کیٹگری میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مختلف ہے، صوبے میں کم سے کم لوڈشیڈنگ 2 جبکہ زیادہ سے زیادہ 20گھنٹے ہے، جن علاقوں میں ریکوری کم اور چوری زیادہ ہے وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی زیادہ ہے۔
پیسکو ترجمان کے مطابق ان گرڈ پر لوڈشیڈنگ پر زیادہ ہوتی ہے جہاں لائن لاسز زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق کچھ فیڈز ایسے بھی ہیں جہاں لائن لاسز 80 فیصد سے بھی زائد ہیں اور ایسے علاقوں میں میٹرز کے بغیر کنڈے کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ایسے فیڈز پر سب سے زیادہ 20 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ پیسکو حکام کے مطابق لائن لاسز کم فیڈز پر لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی ہے۔
پیسکو حکام کے مطابق خیبر پختونخوا میں لائن لوسز سب سے زیادہ ہیں اور جبکہ بل ریکوری بھی کم ہے جس سے کمپنی کو نقصان کا سامنا ہے۔
لوڈشیڈنگ کا حل کیا ہے؟
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بجلی چوری اور لائن لاسز پر موقف اپنایا تھا کہ صوبہ پیسکو کا خسارہ دینے کو تیار ہے اور لائن لاسز اور بل بقایاجات وفاق صوبے کے پن بجلی کے مد میں خالص منافع سے کٹوتی کرے۔ علی امین نے بتایا کہ وفاق کے ذمے صوبے کے بقایاجات ہیں اور وفاق اسے کٹوتی کرکے بقایاجات صوبے کو ادا کرے۔
لیکن صحافی عارف حیات کے نزدیک یہ صرف سیاسی بیان ہے اور عملی طور پر ایسا ممکن ہی نہیں ہے، انھوں نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ بجلی چوری ہو رہی ہے اور بل ادائیگی کا بھی معاملہ ہے۔ ‘اگر حکومت اس طرح ادائیگی شروع کرے گی تو کوئی بھی بل ادا نہیں کرے گا۔‘
پیسکو حکام کے مطابق خیبر پختونخوا میں لائن لوسز سب سے زیادہ ہیں اور جبکہ بل ریکوری بھی کم ہے، جس سے کمپنی کو نقصان کا سامنا ہے، دوسری جانب عارف حیات سمجھتے ہیں کہ وفاق اور صوبے کو مل کر طریقہ کار وضع کرتے ہوئے لائن لاسز اور بل ریکوری کا مسلۂ حل کرنا ہو گا جس کے بعد ہی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو گا۔