چمن میں احتجاج اور سرحد کی بندش سے تجارت کیسے متاثر ہورہی ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان کے شمال مغرب میں واقع صوبہ بلوچستان کے شہر چمن میں گزشتہ 9 ماہ سے علاقہ مکین سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کو ختم کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور تذکرے کی بنیاد پر اسپن بولدک اور چمن کے رہائشیوں کو آمدورفت کی اجازت دے۔
دوسری جانب حکومت پاسپورٹ اور ویزے کے ذریعے نقل و حرکت کرنے والے موقف پر قائم ہے، ان 9 ماہ کے دوران مظاہرین اور حکومت کے درمیان متعدد مذاکراتی نشستیں ہوئیں جو بے معنی ثابت ہوئی ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے پرلت کمیٹی کا احتجاج ختم کرنے کے لیے کارروائیاں بھی کی گئیں جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں مظاہرین زخمی ہو چکے ہیں۔
پرلت کمیٹی کا مطالبہ ہے کہ جب تک ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتا ان کا احتجاج جاری رہے گا۔
9 ماہ سے جاری احتجاج کے باعث چمن میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہورہے ہیں جبکہ کاروباری سرگرمیاں بھی ٹھپ ہیں۔ سرحد کی بندش کے باعث پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی منقطع ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرحد بند ہونے کے باعث تاجروں اور حکومت کو کتنا مالی نقصان ہورہا ہے۔
سرحدی تجارت سے عوام سمیت حکومت کو بھی فائدہ تھا، محمد اسحاق
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایوان صنعت و تجارت بلوچستان کے جنرل سیکریٹری محمد اسحاق نے بتایا کہ چمن سمیت بلوچستان کے شمالی اضلاع کے رہائشی افراد کا روزگار سرحد سے منسلک ہے۔ یہاں بسنے والے افراد روزانہ کی بنیاد پر افغانستان جاکر سامان فروخت کرتے تھے لیکن ایک طویل عرصے سرحد کی بندش کے باعث یہ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دراصل سرحدی تجارت سے صرف عوام کو نہیں بلکہ حکومت کو بھی بے پناہ فائدہ تھا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے دو بڑے روٹ ہیں جن میں پہلا طورخم بارڈر اور دوسرا چمن بارڈر شامل ہیں۔
’چمن بارڈر سے اشیائے ضروریہ افغانستان بھجوائی جاتی تھیں‘
ان کے مطابق چمن سرحد سے زیادہ تر اشیائے ضروریہ افغانستان بھجوائی جاتی تھیں جن میں گندم، چاول، خشک دالیں، سبزیاں، ادویات اور تعمیراتی اشیا جن میں سیمنٹ، سریا اور ٹائلیں شامل تھیں۔
محمد اسحاق نے کہاکہ اس کے علاوہ افغانستان سے خشک میوہ جات سمیت مختلف اقسام کے پھل لائے جاتے تھے۔ دو طرفہ تجارت کے ذریعے سالانہ اربوں روپے کا لین دین کیا جاتا تھا جس کی مد میں حکومت کو سالانہ 50 سے 60 ارب روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔ تاہم سرحد کی بندش کے باعث جہاں عام آدمی بے روزگار ہوا ہے وہیں ٹیکسز کی مد میں حکومت کو بھی اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی متاثر ہوکر رہ گیا ہے۔
کاروباری طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، فدا حسین
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق صدر ایوان صنعت و تجارت فدا حسین نے بتایا کہ سرحد کی بندش کے باعث کاروباری طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ 9 ماہ سے سرحد بند ہونے کے باعث کسی قسم کی تجارت نہیں ہورہی جس سے کاروباریوں سمیت دیہاڑی دار طبقے کو بھی شدید مالی نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاک افغان سرحد چمن سے سالانہ اربوں روپے کی ایکسپورٹ ہورہی تھی جس سے صوبائی حکومت کو ریونیو کی مد میں کئی ملین ڈالر میسر تھے۔ تاہم سرحد کی بندش سے جہاں حکومت کو نقصان ہوا ہے وہیں عام آدمی بھی بیروزگار ہوا ہے جس کا بوجھ حکومت پر براہِ راست پڑے گا۔