توہین عدالت کیس: میڈیا اداروں کے کسی ذمہ دار افسر کا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیئے تھا، چیف جسٹس


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واڈا اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جاری ہے، دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی ایک میڈیا ادارے نے تحریری جواب جمع نہیں کروایا، میڈیا اداروں کے کسی ذمہ دار افسر کا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیئے تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کر رہا ہے، فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوگئے جبکہ سماعت کو براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کیا جارہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ میرے مؤکل نے پریس کانفرنس کرکے معافی مانگی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا کی جانب سے معافی جمع کروائی گئی ہے؟ جس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ جی میری جانب سے بھی معافی کے لیے جواب جمع کروایا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو مذہبی اسکالرز سے مشورہ کرنے کا بھی لکھا ہے۔
اس موقع پر ٹی وی چینلز کی جانب سے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
آپ کس طرح میڈیا اداروں کی جانب سے پیش ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ کس طرح میڈیا اداروں کی جانب سے پیش ہو سکتے ہیں، کسی ایک میڈیا کی جانب سے بھی تحریری جواب جمع نہیں کروایا گیا، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میڈیا اداروں کو شوکاز نوٹسز نہیں تھے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ میڈیا اداروں کو شوکاز کروانا چاہتے ہیں؟ کم از کم میڈیا اداروں کے کسی ذمہ دار افسر کا دستخط شدہ جواب جمع ہونا چاہیئے تھا۔
چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ تمام چینلز کے نمائندگان عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چینلز کی جانب سے جواب جمع نہیں کرایا گیا، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ تحریری جواب جمع کروا چکا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ جواب پر دستخط وکیل کے ہیں چینلز کے نہیں، توہین عدالت کیس میں دستخط چینلز کے ہونا لازمی ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ شوکاز نوٹس ہوتا تو جواب چینلز کے دستخط سے جمع ہوتا۔
آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں، چیف جسٹس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ کو آئین پسند نہیں؟ میں سمجھا آپ آئین سے بات کا آغاز کریں گے، کوئی کسی کو چور ڈاکو کہے اور میڈیا کہے ہم نے صرف رپورٹنگ کی ہے کیا یہ درست ہے؟ کیا ایسے آزاد میڈیا کی اجازت ہونی چاہیئے یا نہیں؟ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
فیصل واوڈا کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فریڈم آف پریس کی وضاحت 200 سال سے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہ 200 سال سے کیوں، 1400 سال سے کیوں شروع نہیں کرتے، آپ کو 1400 سال پسند نہیں؟ 200 سال کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ تب امریکا آزاد ہوا؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں 200 سال کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ ماڈرن آئین کی ابتدا تب ہوئی۔
چیف جسٹس کی وکیل فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت
اس پر چیف جسٹس پاکستان نے وکیل فیصل صدیقی کو آئین کا دیباچہ پڑھنے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بسمہ اللہ الرحمن الرحیم سے آغاز ہو رہا ہے آئین کا، اس میں کہاں ماڈرن ایج کا ذکر ہے؟