سول سوسائٹی کے نمائندے، بشمول خواتین کے حقوق کے گروپس، سرکاری بات چیت کے بعد منگل کو بین الاقوامی ایلچیوں اور اقوام متحدہ کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں شرکت کریں گے . حقوق کے گروپوں نے افغان خواتین کو اہم اجلاسوں سے باہر رکھنے اور انسانی حقوق کے مسائل کو ایجنڈے میں شامل نہ کرنے کی مذمت کی ہے . حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نئے مذاکرات کے موقع پر کابل میں ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ طالبان حکام خواتین سے متعلق مسائل کو تسلیم کرتے ہیں . وفد کی قیادت کرنے والے حکومتی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن یہ مسائل افغانستان کے مسائل ہیں، ہم افغانستان کے اندر مسائل کے حل کا ایک منطقی راستہ تلاش کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ خدا نہ کرے، ہمارا ملک دوبارہ تنازعات اور انتشار کا شکار نہ ہو . انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت اجلاسوں میں تمام افغانستان کی نمائندگی کرے گی اور ان کے اختیار کے پیش نظر صرف افغان ہی میز پر ہوں . انہوں نے کہا اگر افغان کئی چینلز کے ذریعے شرکت کرتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ابھی تک بکھرے ہوئے ہیں، ہماری قوم اب بھی متحد نہیں ہے . یہ مذاکرات مئی 2023 میں اقوام متحدہ کی طرف سے شروع کیے گئے تھے اور ان کا مقصد طالبان حکام کے ساتھ مشغولیت کے حوالے سے بین الاقوامی رابطہ کو بڑھانا ہے، جنہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد مغربی حمایت یافتہ حکومت کو بے دخل کر دیا تھا . طالبان کی حکومت کو کسی بھی ریاست نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ، خواتین کے حقوق کے مسائل بہت سے ممالک کے لیے ایک اہم نکتہ ہیں . طالبان حکام کو گزشتہ سال دوحہ میں ہونے والے پہلے مذاکرات میں مدعو نہیں کیا گیا تھا اور انہوں نے دوسری کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور مطالبہ کیا تھا کہ وہ ہی واحد افغان نمائندے ہوں، تیسرے دور کے لیے یہ شرط پوری ہو گئی ہے . . .
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)طالبان حکام نے اقوام متحدہ کی زیر قیادت مذاکرات سے قبل کہا ہے کہ خواتین کے حقوق سے متعلق مطالبات ’افغانستان کا مسئلہ‘ ہے، ان مذاکرات میں افغان خواتین کی غیر شمولیت نے تنقید کو جنم دیا ہے .
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی حکومت، جس نے 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے خواتین پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اتوار کو قطر میں شروع ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور میں اپنا پہلا وفد بھیجے گی .
متعلقہ خبریں