کراچی سٹی کورٹ، جہاں رشوت کے عوض قیدیوں کے لیے بہت کچھ میسر ہے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)کراچی میں گولڈ میڈلسٹ انجینیئر ارتقا معین قتل کیس کا مرکزی ملزم کراچی کی مقامی عدالت سے پولیس کو چکما دے کر فرار ہوگیا۔ پولیس کے مطابق ملزم ظاہر کو جیل سے پیشی کے لیے عدالت لایا گیا تھا، 4 بج کر 10 منٹ پر ملزم کو عدالت سے سٹی کورٹ لاک اپ جاتے دیکھا گیا تھا۔
اس حوالے سے تھانہ سٹی کورٹ پولیس کا کہنا ہے کہ سٹی کورٹ لاک اپ جانے کے بعد ملزم ظاہر غائب ہوگیا، سٹی کورٹ سے جیل منتقلی کے دوران قیدیوں کی تعداد مکمل تھی، جیل پہنچ کر گنتی میں ایک قیدی کم پایا گیا تو ملزم کے فرار کا انکشاف ہوا۔
پولیس نے مزید بتایا کہ ملزم کے فرار ہونے کا مقدمہ سٹی کورٹ تھانے میں سپاہی اشتیاق احمد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے، ملزم ظاہر کو پولیس کے مطابق ایس آئی یو پولیس نے بلوچستان سے گرفتار کیا تھا۔
گولڈ میڈلسٹ انجینیئر ارتقا معین کو کراچی میں چند روز قبل موٹر سائیکل چھیننے کے دوران قتل کردیا گیا تھا، مقتول کیمیکل انجینیئرنگ میں گولڈ میڈلسٹ تھا اور اس کی 2 سال قبل شادی ہوئی تھی، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا تھا کہ ایک ملزم سے ارتقا کافی دیر سے مزاحمت کررہا تھا، موٹر سائیکل پر بیٹھے ملزم نے گولی چلائی جس کے نتیجے میں نوجوان جاں بحق ہوگیا، ارتقا کے بھائی عباد کا کہنا تھا کہ ارتقا کو گولیاں مارنے کے بعد تلاشی لی گئی اور ملزمان موبائل فون، نقدی سمیت موٹر سائیکل لے کر فرار ہوگئے۔
’جب رشوت کے عوض قیدی کو آزادی مل جاتی ہے‘
سٹی کورٹ میں رشوت وصولی پر سہولیات فراہمی اور قیدیوں کے فرار کے واقعات کوئی نئی بات نہیں، سٹی کورٹ میں اکثر ہتھکڑی لگے قیدیوں کو موبائل فون پر بات چیت کرتے دیکھا گیا ہے، اور یہ ممکن ہی تب ہوتا ہے جب ساتھ حفاظت پر مامور پولیس اہلکار ان ملزموں کو استعمال کے لیے اپنا موبائل فون دیتے ہیں۔
’پیشی پر آئے ہوئے قیدیوں کو رشوت کے عوض موبائل فون پر گھنٹوں بات چیت کی سہولت، مرضی کی جگہوں پر بیٹھنے، کھانے پینے، غیر متعلقہ افراد سے ملاقات سمیت دیگر سہولیات دی جاتی ہیں، جبکہ رشوت نہ دینے والوں کو متعلقہ عدالت میں پیشی کے بعد لاک اپ (بخشی خانے) میں بند کردیا جاتا ہے‘۔
اہم ذمہ داری اور غفلت
پولیس اہلکاروں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سےدہشتگردی سمیت مختلف مقدمات میں گرفتار 12 قیدی سٹی کورٹ سے فرار ہوچکے ہیں جبکہ غفلت اور لاپرواہی برتنے والے 13 پولیس افسران اور اہلکار گرفتار بھی کیے جاچکے ہیں۔
کون سی جیل سے روزانہ کتنے قیدی عدالت لائے جاتے ہیں؟
سٹی کورٹ پولیس ذرائع کے مطابق سٹی کورٹ میں رشوت وصولی اور پولیس اہلکاروں کی نفری کی کمی قیدیوں کے فرار ہونے کی وجہ ہے، ہزاروں قیدیوں کے لیے محض 52 پولیس اہلکار تعینات ہیں، سٹی کورٹ میں سینٹرل، لانڈھی، خواتین اور بچہ جیلوں سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک ہزار قیدیوں کو پیشی کے لیے لایا جاتا ہے جن میں سینٹرل جیل کے 450، لانڈھی جیل کے 350، ہائی پروفائل 150، خواتین جیل کی 20 اور بچہ جیل کے 50 قیدی شامل ہیں۔
سٹی کورٹ میں ہتھکڑی لگے نظر آتے قیدی کون ہیں؟
کسی بھی مقدمہ میں گرفتار ہونے والے ملزم کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور عدالت یا تو ملزم کو رہا کردیتی ہے یا پھر جیل بھیج دیتی ہے، رہائی پانے والا ملزم متعلقہ مقدمے میں گھر سے جبکہ جیل جانے والے ملزم کو جیل سے ہی پیشی پر لایا جاتا ہے، ملزمان کو جیل وین و دیگر گاڑیوں میں جیلوں سے سٹی کورٹ کے لاک اپ (بخشی خانہ) میں لایا جاتا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر سینٹرل جیل سے 8 گاڑیوں، ملیر جیل سے 8 گاڑیوں، ماڈل کورٹس کے قیدیوں کی ایک گاڑی، کم عمر قیدیوں کی ایک گاڑی اور خواتین قیدیوں کی ایک گاڑی کے ذریعے ملزمان کو سٹی کورٹ کے لاک اپ میں پہنچایا جاتا ہے، لاک اپ کے گراؤنڈ فلور پر مذکورہ گاڑیوں کی پارکنگ بنائی گئی ہے جہاں سے ملزمان کو گاڑیوں سے نکال کر اینٹری کی جاتی ہے۔
اینٹری ہونے کے بعد قیدیوں کو لاک اپ میں بند کردیا جاتا ہے، قیدی جیلوں سے آتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی بندھی ہوتی ہے جنہیں لاک اپ میں کھول کر 8 سے 10 قیدیوں کو ایک ہی زنجیر میں باندھا جاتا ہے، اور اس کے بعد متعلقہ عدالتوں میں پیشی کے لیے لے پہنچایا جاتا ہے۔
قیدیوں کی کارنر میٹنگز
سٹی کورٹ جاکر مشاہدہ کرنے اور وہاں موجود ذرائع سے معلوم ہوا کہ جیلوں سے پیشی پر لائے جانے والے قیدیوں کو رشوت کے عوض سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں، قیدیوں کو متعلقہ عدالتوں میں پیش کرنے کے بعد واپس لاک اپ کرنے کے بجائے سٹی کورٹ میں مختلف جگہوں پر بنائے ہوئے شیڈز اور دیگر جگہوں پر بٹھایا جاتا ہے، ملزمان کے دیگر جگہوں پر بیٹھنے کی وجہ سے اہلخانہ سمیت غیر متعلقہ افراد ملاقات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس سے قبل کون کون فرار ہوا؟
پولیس ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں کی غفلت اور لاپرواہی کے سبب سٹی کورٹ سے قتل، غیر قانونی اسلحہ، فراڈ، دھوکہ دہی، چیک باؤنس سمیت متعدد مقدمات میں گرفتار 11 قیدی اب تک فرار ہوچکے ہیں، فرار ہونے والے قیدیوں میں قتل اور غیر قانونی اسلحہ کے مقدمات میں پیشی پر آنے والے 2 ملزمان اکرام اور ایاز عرف شنکر شامل ہیں، جس پر سٹی کورٹ کے لاک اپ کے 2 اے ایس آئیز رسول بخش اور اخلاق کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اسی طرح دعا منگی کیس کا ملزم زوہیب قریشی پولیس اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے فرار ہوا تھا جس پر ہیڈ کانسٹیبل محمد نوید اور حبیب ظفر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ قتل اور اسلحہ برآمدگی کے مقدمات میں نامزد قیدی ملک الطاف جبکہ غیر قانونی اسلحہ برآمدگی کا قیدی طارق بھی فرار ہوچکے ہیں جس پر پولیس اہلکاروں عالم زیب اور شوکت کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
دھوکہ دہی کے مقدمہ میں قید 2 سگے بھائی محمد امین اور محمد اسماعیل بھی فرار ہوچکے ہیں جبکہ مختلف نوعیت کے 17 مقدمات میں نامزد قیدی آصف بھی فرار ہونے والوں میں شامل ہے۔
قیدیوں کے فرار پر غفلت برتنے والے 3 پولیس اہلکاروں عبدالرؤف، فہد اور خضر حیات کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
منشیات فروشی میں ملوث ملزم نور علی بھی فرار ہوچکا ہے جس پر پولیس اہلکار اختر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، قتل کے مقدمہ میں بند قیدی شوکت بھی فرار ہوچکا ہے جس پر غفلت و لاپرواہی برتنے والے اے ایس آئی رمضان، ہیڈ کانسٹیبل غلام مصطفیٰ اور کانسٹیبل ایوب کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔