اسلام آباد

کیا بجلی کے بل حکمرانوں کے وعدوں سے مطابقت رکھتے ہیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)عام انتخابات سے قبل ہر سیاسی رہنما عوام سے وعدے کرتا ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد فلاں فلاں کام کرے گا، اس میں کچھ وعدے ایسے بھی ہوتے ہیں جو عوام میں انتہائی مقبول ہو جاتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی رہنماؤں کو وہ وعدے متعدد بار یاد کرائے جاتے ہیں۔ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے عوامی اجتماعات اور اپنے منشور میں بہت سے وعدے کیے تھے تاہم بجلی کے فری یونٹس دینے کا وعدہ آج کل عوام کی جانب سے دہرایا جا رہا ہے جبکہ حکمران اس پر خاموش ہیں۔
ملک بھر میں گرمی کی شدت بڑھنے سے عوام نے پنکھوں، کولر اور اے سی سمیت مختلف آلات کا استعمال بڑھا دیا ہے جبکہ مہنگی بجلی کے باعث اب عوام کو ہزاروں روپوں کے بجلی کے بل آنا شروع ہو گئے ہیں جس سے عوام اور کاروباری طبقہ سراپا احتجاج ہے۔ اس موقعے پر عوام کی جانب سے حکمرانوں کو ان کے کیے گئے وعدے یاد کرائے جا رہے ہیں جبکہ عوام کی جانب سے بجلی کے بھاری بلوں پر احتجاج کی کال بھی دی جا رہی ہے۔
صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے انتخابات سے قبل عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے 200 یونٹ تک بجلی فری دینے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ’آپ لوگوں کو کیسا لگے گا جب آپ بجلی کا بل جمع کرانے جائیں گے اور آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کا بل پنجاب حکومت نے جمع کرا دیا ہے‘۔
اس کے برعکس پنجاب بھر میں رہنے والے بالعموم اور چھوٹے دکاندار بالخصوص بجلی کے بھاری بلوں سے انتہائی پریشان نظر آ رہے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ ہم تو گزشتہ سالوں کی نسبت انتہائی کم بجلی استعمال کر رہے ہیں اس کے باوجود ہمارے بل ہزاروں میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 30 یا 40 ہزار روپے تنخواہ ہو اور 15 سے 20 ہزار روپے کا بل آ جائے تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔
صوبہ سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی عام انتخابات سے قبل عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے تھے جن میں سب سے اہم 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو بجلی فری کرنے کا اعلان تھا تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 300 یونٹ استعمال کرنے والوں سے 12 سے 15 ہزار روپے کا بل وصول کیا جا رہا ہے اور بھاری بلوں کے باعث سندھ کے رہائشی اور کاروباری طبقہ سراپا احتجاج ہے۔
حکمراں جماعت نے عام انتخابات سے قبل اور بھی بہت سے وعدے کیے تھے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور جاری کیے گئے تھے جن میں بلند و بانگ دعوے تھے۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے الیکشن سے قبل اپنا منشور بھی جاری کیا تھا جس کے مطابق مالی سال 2025 تک مہنگائی میں 10 فیصد کمی کی جانی تھی اور مہنگائی 4 سے 6 فیصد تک لائی جانی تھی۔ منشور میں کہا گیا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خساره جی ڈی پی کا 1.5 فیصد تک کیا جائے گا اور 3 سال میں اقتصادی شرح نمو 6 فیصد سے زائد پر لائی جائے گی جبکہ منشور میں 5 سال میں غربت میں 25 فیصد کمی کا ہدف بھی رکھا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن نے دعویٰ کیا ہے کہ 5 سال میں بیروزگاری میں 5 فیصد کمی کی جائے گی، 4 سال میں مالیاتی خسارہ 3.5 فیصد یا اس سے کم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ 5 سال میں فی کس آمدنی 2 ہزار ڈالر کرنے کا ہدف ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں دعویٰ کیا ہے کہ کم از کم تنخواہ میں ہر سال 8 فیصد کا اضافہ کیا جائے گا جبکہ بیروزگار نوجوانوں کے لیے سرکاری اداروں میں نئی نوکریاں تخلیق کی جائیں گے اور یوتھ کارڈ کا اجرا کیا جائے گا۔
پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ تعلیم سب کے لیے ہوگی اور اس ضمن میں ہر 30 منٹ کے سفر پر ایک پرائمری اسکول اور ہر ایک گھنٹے کے سفر پر مڈل اور سیکنڈری اسکول لازمی ہوگا جبکہ ہر ضلعے میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں کسانوں کے لیے بھی پیکج کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں دل، جگر اور گردے کے امراض کا مفت علاج کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں