اسلام آباد

پاکستان کے گرم ترین علاقے میں زندگی کا چلن کیسا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جیکب آباد پاکستان کا گرم ترین علاقہ ہے۔ یہ صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کی سرحد کے قریب سکھر سے کوئٹہ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے جہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔
پاکستان کے کئی علاقے اس وقت گرمی کی شدید لپیٹ میں ہیں۔ کراچی کی صورت حال یہ ہے کہ پارہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر ہوتے ہی نہ صرف انسان بلکہ مویشیوں کی بھی ہلاکتوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میں گرم ترین علاقے جیکب آباد میں انسانوں اور جانوروں پر کیا بیتتی یہ جاننے کے لیے وی نیوز نے جیکب آباد کے سینئر صحافی مکیش روپیتا سےرابطہ کیا۔
مکیش روپیتا کا کہنا ہے کہ جیکب آباد پاکستان کا سب سے گرم ترین جبکہ ایشیا کا دوسرا گرم ترین علاقہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کا درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاتا ہے اور عموماً 45 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جیکب آباد میں رہن سہن دیگر علاقوں سے مختلف کیوں؟
مکیش روپیتا کے مطابق گرم علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کا رہن سہن پاکستان کے باقی علاقوں سے مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں سورج نکلتے ہی کاروبار زندگی شروع ہوجاتا ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ دن کے 11 بجے سے پہلے کام کاج نمٹا دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کا مزدور طبقہ دن کے 11 بجے تک کام کرتا ہے تاہم جہاں چھت کے یا پنکھے کے نیچے کام کرنا ممکن ہو وہاں کام دیر تک بھی جاری رہتا ہے۔
اتنے گرم علاقے میں بجلی کی کیا صورت حال ہے؟
مکیش روپیتا کے مطابق اس علاقے میں جس حد تک گرمی رہتی ہے کہ اس میں مزدور صرف اور صرف پنکھے کی ہوا میں اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنا کام کرسکیں لیکن بد قسمتی سے یہاں بھی لوڈ شیڈنگ کی صورت حال یہ ہے کہ 12 سے 14 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔

جہاں تک پانی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے صحافی کا کہنا تھا کہ جیکب آباد میں نہری پانی استعمال ہوتا ہے اور اس اعتبار سے یہاں کے لوگ خوش قسمت ہیں
کیا جیکب آباد کے لوگ اے سی استعمال کرتے ہیں؟
اس سوال پر مکیش روپیتا کا کہنا تھا کہ جیکب آباد کے شہری علاقوں میں جدید گھر ہیں جہاں اے سی کا استعمال ہوتا ہے لیکن زیادہ تر گھر یہاں پر گرمی سے مقابلے کے لیے کچے یعنی مٹی اور اینٹوں کے گھر بنائے جاتے ہیں اور یہ یہاں کے باسیوں کے لیے اس موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

سولر پینل، امید کی کرن
مکیش روپیتا کا کہنا تھا کہ جب سے سولر پینل سستے ہوئے ہیں تب سے لوگوں نے اسے استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور امکان ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں یہاں زیادہ تر شہری سولر پر منتقل ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک گرمی کی شدت سے جانوروں یا انسانوں کے مرنے کا سوال ہے وہ یہاں اس لیے نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں لوگ اس موسم کے عادی ہیں اور اسی کے حساب سے اپنے لیے گھر بناتے ہیں جب کہ جانوروں کو موسم کی شدت سے بچانے کے لیے پانی میں رکھا جاتا ہے۔