2018 میں بھی پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرایا پھر انتخابی نشان کیسے ملا؟ سپریم کورٹ


پچھلی باتیں کھولنے پر آئیں تو بہت کچھ سامنے آجائے گا، مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں چیف جسٹس کے ریمارکس
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے الیکشن کمیشن کے دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کی مخصوص نشست کا سوال اٹھایا تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں جائیں گے تو بہت سی باتیں کھلیں گی، 2018 میں بھی پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرایا پھر انتخابی نشان کیسے ملا؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بی اے پی کا معاملہ دیکھیں تو چیئرمین سینٹ کا الیکشن بھی پھرغلط تھا، پچھلی باتیں کھولنے پر آئیں تو بہت کچھ سامنے آجائے گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ تھے۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ میں 30 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا، میں 4 قانونی نکات عدالت کے سامنے رکھوں گا، پارٹی سرٹیفکیٹس جمع کرانے کے وقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا، الیکشن میں سرٹیفکیٹ گوہر علی خان کے دستخط سے جمع کرائے گئے، پی ٹی آئی نے اس وقت انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں کرائے تھے، فارم 66 جمع کراتے پی ٹی آئی کا کوئی ڈھانچہ نہیں تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آزاد امیدواروں کے پارٹی سرٹیفکیٹ کا ریکارڈ جمع کرایا، جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ جس کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں اس کا کیا ہوگا، جس پر وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ کے بغیر والے آزاد امیدوار تصور ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ پارٹی تنظیم انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کرانے کی وجہ سے وجود نہیں رکھتی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ 22 دسمبر کو جاری شدہ ہیں، انٹراپارٹی انتخابات کیس کا فیصلہ 13جنوری کا ہے تب تک بیرسٹر گوہر چیئرمین تھے۔
وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات 23 دسمبر کو کالعدم قرار دے دیے تھے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 26 دسمبر کو معطل ہوچکا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ غلطی کہاں سے ہوئی اور کس نے کی ہے یہ بھی بتائیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کئی امیدواروں نے پارٹی وابستگی نہیں لکھی اسی وجہ سے امیدوار آزاد تصور ہوگا۔
’اصل چیز پارٹی ٹکٹ ہے جو نہ ہونے پر امیدوار آزاد تصور ہوگا‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل چیز پارٹی ٹکٹ ہے جو نہ ہونے پر امیدوار آزاد تصور ہوگا، جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ اس معاملے پر میں اور آپ ایک پیج پر ہیں۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پیچ پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر کے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس کی قانونی حیثیت نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں امیدوار سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی سے اتحاد کا لکھا، جس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ حامد رضا کو الیکشن کمیشن نے آزاد امیدوارکیسے قرار دے دیا۔ وکیل سکندر بشیر نے مزید کہا کہ حامد رضا کی اپنی درخواست پرالیکشن کمیشن نے انھیں آزاد ڈکلیئر کیا، حامد رضا کے کاغذات نامزدگی میں تضاد تھا۔
’پی ٹی آئی خود وقت مانگتی رہی اور الزام سپریم کورٹ پر لگا رہے ہیں‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے خود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرائے، کئی سالوں سے انٹراپارٹی انتخابات کا معاملہ چل رہا تھا، پی ٹی آئی خود وقت مانگتی رہی اور الزام سپریم کورٹ پر لگا رہے ہیں، یا تو کہیں پی ٹی آئی نے فٹبال کی طرح انجری ٹائم یا اضافی ٹائم لے رکھا تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کنول شوزب کا اس کیس میں چارہ جوئی کا حق نہیں بنتا، کنول شوزب اس فیصلے سے متاثرہ فریق نہیں ہیں، کنول شوزب کی درخواست کو مسترد کیا جائے، کنول شوزب پی ٹی آئی ویمن ونگ کی سربراہ ہیں، گوہر خان سمیت چار ایم این ایز قومی اسمبلی میں آزاد ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بی اے پی کو مخصوص نشستیں کیوں دی گئیں، بی اے پی نے تو مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کرائی، جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے بتایا کہ بی اے پی نے قومی اسمبلی اوربلوچستان اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا بی اے پی سے متعلق حکم کہاں ہے کیا کوئی اجلاس ہوا تھا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ایک فائل موجود ہے مگربی اے پی سے متعلق کوئی اجلاس نہیں ہوا تھا، بی اے پی سے متعلق فیصلہ الیکشن کمیشن کے موجودہ ممبران نے نہیں کیا۔
’اگر سپریم کورٹ کے فیصلے میں نااہلی کی بات نہ ہو تو کیا ہوگا‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو نااہل قرار دیا، اگر سپریم کورٹ کے فیصلے میں نااہلی کی بات نہ ہو تو کیا ہوگا، جس پر وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ انٹراپارٹی انتخابات نہ کرانے کے باعث پی ٹی آئی کے سرٹیفکیٹس غیر مؤثر ہوگئے۔
بعدازاں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
بیرسٹر گوہر خان روسٹرم پرآ گئے
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا بیرسٹر گوہر خان موجود ہیں؟ گوہر آپ آجائیں، جس پر بیرسٹر گوہر خان روسٹرم پرآ گئے ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گوہر صاحب پہلی سماعت پر پوچھا تھا پارٹی سرٹیفکیٹ اور ڈیکلریشن جمع کرائے، آپ نے ہاں میں جواب دیے تھے، جس پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہر امیدوار چار چار فارم جمع کرا سکتا، ہم نے 2،2 کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، آپ فارم 31 منگوا لیں۔
صدر سپریم کورٹ بار نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لیے، جے یو آئی نے الیکشن کمیشن وکیل کے دلائل اپنا لیے جبکہ کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل اپنا لیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں الیکشن کمیشن نے ٹھیک کام کیا؟ جس پر جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ جی ہاں۔
مسلم لیگ (ن) لیگ کے وکیل نے تحریری گزارشات عدالت میں جمع کرا دیں
مسلم لیگ (ن) لیگ کے وکیل نے تحریری گزارشات عدالت میں جمع کرا دیں جبکہ ن لیگ نے بھی جسٹس مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لیے۔پیپلزپارٹی کے وکیل نے الیکشن کمیشن اورمخدوم علی خان کے دلائل اپنا لیے،۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آپ اپنی پٹیشن چلا رہے ہیں تو کالا کوٹ نہیں پہن سکتے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مولوی اقبال حیدر ایڈووکیٹ کو دلائل سے روک دیا۔
ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا بھی روسٹرم پرآ گئے
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا بھی روسٹرم پرآ گئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کس کی طرف سے ہیں؟ سن کرجواب دیجیے گا، آپ کس حیثیت میں بات کر رہے ہیں؟۔ ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کا مؤقف پیش کروں گا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ خیبرپختونخوا حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں صوبے میں الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے؟۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو لسٹ جمع کرائے بغیر مخصوص نشستیں دی گئیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی تو اس وقت آپ کی اتحادی تھی، کیا آپ نے اس وقت بی اے پی کی مخصوص نشستوں کو چیلنج کیا۔ ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ ہم نے اس وقت بی اے پی کی مخصوص نشستوں کو چیلنج نہیں کیا۔
’2018 میں بھی پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرایا پھر انتخابی نشان کیسے ملا؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں جائیں گے تو بہت سی باتیں کھلیں گی، 2018 میں بھی پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرایا پھر انتخابی نشان کیسے ملا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ بی اے پی کا معاملہ دیکھیں تو چیئرمین سینیٹ کا الیکشن بھی پھرغلط تھا، پچھلی باتیں کھولنے پر آئیں تو بہت کچھ سامنے آجائے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دلائل مکمل یوگئے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 8 فروری کو ایک الیکشن نہیں ہوا بلکہ 5 عام انتخابات ہوئے۔ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں دلائل کے لیے 45 منٹ لوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آج آپ دلائل دیں گے یا کل دینا چاہیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج ہی دلائل دینا چاہوں گا۔
کیس کی سماعت میں وقفہ
بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ تحریری گزارشات جمع کروا رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے بار بار درخواست کا پوچھ رہا ہوں، آپ سے کیس کا نمبر پوچھ رہا ہوں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کر دیا، انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا مقصد اقلیتوں اورخواتین کو آگے لانا ہے، 2002 میں پہلی بار خواتیں کو قومی اور صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دی گئی، ماضی کے انتخابات میں بھی خواتین اوراقلیتوں کو نمائندگی دی گئی، اقلیتوں اورخواتین کوسیاست میں کردارادا کرنے کیلئے مخصوص نشستیں رکھی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ 17 ویں ترمیم خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں، آرٹیکل 51 اشارہ کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں کا مطلب خواتین کو با اختیار بناناہے، 2002 میں پہلی مرتبہ خواتین کو قومی، صوبائی، سینٹ میں نمائندگی ملی۔
خواتین کی نمائندگی سے متعلق اٹارنی جنرل منصور اعوان نے ماضی کی قومی اسمبلیوں میں سیٹیں بتائیں اور کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد 60 مخصوص نشستوں کا مطلب نمائندگی کو بڑھانا ہے، آرٹیکل 51 کا مطلب خواتین کے ساتھ غیرمسلمانوں کی نمایندگی بھی اسمبلیوں میں دینا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو سینٹ، قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا
اٹارنی جنرل منصوراعوان نے سپریم کورٹ کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت ہی ووٹ حاصل کرکے مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہوتی ہیں، اسمبلیوں کی نشستیں جنرل انتخابات اورپھرمخصوص نشستوں سے مکمل کی جاتی ہیں، اسمبلیوں میں نشستوں کو مکمل کرنا ضروری ہے، آئین کا مقصد خواتین، غیر مسلمانوں کو نمائندگی دینا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسمبلی میں نشستیں مکمل نہیں ہوں گی تو آئین کا مقصد پورا نہیں پوگا، فارمولے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی جنرل سیٹیں ایک مخصوص نشست حاصل کرنے کے لیے چاہیئے ہوں گی۔ اٹارنی جنرل منصوراعوان نے بلوچستان اسمبلی کی مثال دے کر فارمولا سپریم کورٹ کے سامنے رکھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل منصوراعوان کو ہدایت کی کہ پارٹی کے مطابق مخصوص نشستوں کا فارمولا بتائیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل منصوراعوان سے سوالات
جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل منصوراعوان سے سوالات کیے کہ 2002 سے کیا ایک ہی فارمولا استعمال ہورہا ہے؟ کیا مستقل مزاجی سے ایک ہی فارمولا استعمال ہورہا ہے؟ الیکشن کمیشن کب سے فارمولا استعمال کررہا ہے؟ قانون کے بدلنے کے بعد کیا فارمولا تبدیل نہیں ہوا؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کوانتخابات سے باہرکرنے کے بعد تنازع شروع ہوا، اگر الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کوانتخابات سے باہرنہ کرتی توتنازع نہ ہوتا۔
کاش میرا بھی چیف جسٹس والا دماغ ہوتا، جسٹس منصور علی شاہ
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم مفروضوں اور فارمولے کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں، رولز چھوڑدیں صرف آئین کو دیکھ لیں، آئین میں سب کچھ واضح لکھا ہوا ہے کوئی ابہام نہیں۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کاش میرا بھی چیف جسٹس والا دماغ ہوتا، ہمیں تو آئین شاید آئین اتنی آسانی سے سمجھ نہیں آتا، میں ایک عام آدمی ہوں مجھے سب باتیں سمجھنا پڑتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل مکمل کیے، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کچھ درخواستوں کی جانب توجہ دلائی، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے ماضی کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔
کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔ عدالت نے 2018 میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات طلب کرلیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کہتا ہوں فیصلے ایسے لکھے جائیں میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ سکے، الیکشن کمیشن حقیر ادارہ نہیں ہے نہ ہی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کل متناسب نمائندگی کے فارمولے کی وضاحت کیجئے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو عدالتی سوالات سامنے آئے ہیں ان کے کل جوابات دیجئے گا۔
گزشتہ سماعتوں کا احوال
واضح رہے کہ 27 جون کو سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔
یاد رہے کہ 25 جون کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔
واضح رہے کہ 24 جون کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔
22 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا، سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔
4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔
3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔
31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔
4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔
3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔ یاد رہے کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔