مخصوص نشستوں کا کیس: پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، جسٹس منیب اختر


چیف جسٹس کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ کیس کی سماعت کررہا ہے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل کورٹ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کررہا ہے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز پوچھے گئے عدالتی سوالات سے دلائل کا آغاز کروں گا، 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستیوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا گیا تھا، 2002 اور 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوںگی جب کم ازکم ایک نشست جیتی ہوگی۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کردیا۔انہوں نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 265 نشستوں پر نافذ ہوا، 2018 میں 60 خواتین اور 10 غیرمسلم سیٹیں مخصوص تھیں۔
اٹارنی جنرل نے 2002 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی عدالت کو آگاہ کردیا، انہوں نے بتایا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔ منصور عثمان اعوان نے مزید کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کردیا، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کیے توکیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے، ایک جماعت کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے ہی باہر کردیا گیا، آئین کی بنیاد ہی جمہوریت پر کھڑی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میری گزارشات کے آخری حصے میں اس سوال کا جواب ہوگا، سوال ہے کیا آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدواروں کی شمولیت ہو سکتی ہے، کیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی اہل ہے یا نہیں؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی تعداد 2024 میں بہت بڑی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جاسکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر اسمبلی مدت ختم ہونے میں 120 دن رہ جائیں تو آئین کہتا ہے انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کوآزاد نہیں قراردیا؟ جب ایسا ہوا ہے توکیا عدالت کویہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیئے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جواس غلطی کا ازالہ کرے؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل51 میں سیٹوں کا زکر ہے، ممبرشپ کا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعائت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، اصل مسئلہ الیکشن کمیشن کی غلطی کے سبب پیش آیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، اگر متبادل طریقے موجود ہیں تو درستگی ہونی چاہیئے، آئین سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل انجن ہی پولیٹیکل پارٹیز ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب ہے کہ عوامی نمائندگی جھلکنی چاہیئے، جس پر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 51 ڈی کے تحت آزاد اراکین کو الگ رکھا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پراتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں، موجودہ سچوئشن بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا یہ ان کاکام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی مثال غیر متعلقہ ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرچکا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔جسٹس منصورعلی شاہ نے پھر پوچھا کہ الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرتا ہے؟ پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا؟ وہ نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل نے ریکارڈ پر رکھا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جواب الجواب دلائل میں وہ خود بتا دیں گے، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ وہ نہیں، آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے اس نوٹیفکیشن پر کیا کہتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل کو دکھادیا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن بھی دکھا دیا۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نوٹیفکیشن سے زرتاج گل کوپارلیمانی لیڈربھی بنا چکا۔
گزشتہ سماعتوں کا احوال
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تحریک انصاف ایک سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔
اس سے قبل 27 جون کو سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔
25 جون کو سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آمر آئے تو سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔
24 جون کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔
22 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا، سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔
4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔
3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔
31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔
3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔یاد رہے کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔