الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 سینیٹ سے منظور، اپوزیشن کا شدید احتجاج


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سینیٹ میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جہاں اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے شور شرابا کیا اور بل پر شدید تنقید کی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی بل 2024 قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں بھی پیش کردیا، جس کے بعد قائد حزب اختلاف سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹرز نے اس کی مخالفت کی۔
سینیٹ نے کثرت رائے سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 منظور کرلیا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے شور شرابے پر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ایوان کو قومی اسمبلی نہ بنائیں، اگر رویہ تبدیل نہیں ہوا تو ایکشن لوں گا۔ ایوان بالا سے منظور ہونے والے ترمیمی بل کے تحت الیکشن کمیشن ریٹائرڈ ہائی کورٹ کے ججوں کو بطور ٹربیونل تعینات کرسکے گا، جس کے لیے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 140 میں ترمیم کی گئی ہے۔
سینیٹ میں ترمیمی بل 2024 کی پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام کی مخالفت کی، بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ایوان سے واک آؤٹ جبکہ سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے اپوزیشن نے واک آوٹ میں حصہ نہیں لیا جبکہ
اپوزیشن کچھ دیر بعد ایوان میں واپس آگئی۔
اس سے قبل جب وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل سینٹ میں پیش کیا تو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے کہا کہ 2017 میں اس ایکٹ میں ترامیم کی گئی تھیں، اس کے بعد 5 اگست 2023 کو متعدد ترامیم کی گئی تھیں، اس ترمیم میں کہا گیا تھا کہ الیکشن ٹریبونلز میں صرف حاضر سروس جج بٹھائے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ترمیم لائی جا رہی ہے کہ الیکشن ٹربیونلز میں ریٹائرڈ جج بھی بٹھائے جاسکتے ہیں، قانون سازی اس لیے ہو رہی ہے کہ جو آپ کو موزوں ہو اس کے مطابق ترمیم کرلی جائے۔
شبلی فراز نے کہا کہ رجیم چینج کے بعد پی ٹی آئی پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، ہم سے انتخابی نشان چھینا گیا، ہمارے لوگوں سے کاغذات نامزدگی چھینے گئے، ہم نے انٹراپارٹی الیکشن کروائے اس کو الیکشن کمیشن نے ماننے سے انکار کر دیا، اس کے بعد شفاف طریقے سے سپریم کورٹ کے کہنے پر ہم نے الیکشن کروائے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن یہ کہتا ہے ہم نے الیکشن ٹھیک نہیں کروائے اس لیے انتخابی نشان نہیں دیا گیا، اخبار میں خبر آئی ہے کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے 25حلقوں کے فارم45ہٹا دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نہیں چاہتی کہ الیکشن ٹربیونلز کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے، وفاق کی علامت اس ایوان میں ایک صوبے کے نمائندگان موجود نہیں، یہ ایوان ابھی نامکمل ہے۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اسمبلی اور سینٹ میں جو بھی الیکشن ہوئے ہیں وہ قانونی یا اخلاقی طور پر غلط ہیں، پچھلے سال ایک ترمیم کی وہ آپ کو سوٹ نہیں کرتی تھی، آج پھر ایک ترمیم لے کر آگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2023 میں انہی کی حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی، اب پھر ترمیم لے کر آگئے ہیں، ایک سال سے بھی کم وقت گزرا ہے تو کیا ضرورت پڑی یہ دوبارہ ترمیم لے کر آگئے ہیں۔
وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے شبلی فراز کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے جس دن 53 قوانین ایک گھنٹے میں پاس کروائے تھے تو کیا وہ بہت اچھی قانون سازی کروائی تھی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ الیکشن ٹربیونلز کے کام کو تیز کرنے کے لیے یہ ترمیم لائی جا رہی ہے، جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے۔ اس دوران سینٹ میں اپوزیشن نے شور شرابہ کیا اور احتجاج جاری رکھا۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل بدنیتی پر مشتمل ہے، یہ بل منظور ہوگیا تو جمہوریت کا قتل ہوگا، اس قانون کے پیچھے نیت ہے کہ غیرمنتخب لوگ جو طاقت میں آگئے ہیں ان کو طاقت میں رکھا جائے، اس بل کے پیچھے الیکشن کمیشن اور طاقت ور حلقے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار نہیں کہ جج ان کی مرضی کے ہوں گے، آج سپریم کورٹ نے بھی کہا الیکشن کمیشن کا یہ اختیار نہیں ہے لیکن آج حکومت یہ ترمیم اس لیے لائی ہے کہ الیکشن کمیشن خود ہی ریٹائرڈ ججوں کو لگا دے۔
انہوں نے کہا کہ آج ایک بڑی سازش کو بے نقاب کروں گا، بس بہت ہوگیا آج ساری باتیں ریکارڈ پر لاؤں گا، الیکشن ایکٹ سیکشن 140 کہتا ہے الیکشن ٹربیونل کے لیے الیکشن کمیشن متعلقہ چیف جسٹس ہائی کورٹ سے مشاورت کرے گا۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگست 2023 میں ترمیم ہوئی انصاف کےلیے حاضر سروس جج ٹربیونل لگیں گے، الیکشن کمیشن نے 2024 کے انتخابات اسی ترمیم کے تحت کرائے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے 8 آزاد ججوں کے نام بھجوائے، الیکشن کمیشن نے 4 جج چنے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا مشاورت کا مطلب چیف جسٹس کے بھیجے گئے نام فائنل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ اپنی مرضی کے ریٹائرڈ جج لگائے جائیں۔