لیاری یونیورسٹی،وائس چانسلر کی عدم موجودگی میں مالی بے قاعدگیاں سامنے آنے لگیں
کراچی(قدرت روزنامہ)لیاری یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی عدم موجودگی میں مالی بے قاعدگیاں سامنے آنے لگیں۔بینظیربھٹو یونیورسٹی (لیاری یونیورسٹی) میں گزشتہ ڈھائی برس سے مستقل وائس چانسلرکی عدم موجودگی کے بھیانک نتائج کاسلسلہ جاری ہے۔نجی نیوز کیمطابق یونیورسٹی کی بدترین اکیڈمک تنزلی کے بعد اب عوامی ٹیکس سے چلنے والی اس سرکاری یونیورسٹی میں افسران کی جانب سے مختلف اشیا کی خریداری میں بے قاعدگیوں اوربے ضابطگیوں کی باقاعدہ اورآفیشل رپورٹس موصول ہورہی ہیں جس سے یونیورسٹی کوکروڑوں روپے کانقصان پہنچایاجارہاہے۔اسی طرح کی ایک بے ضابطگی یونیورسٹی میں امتحانی کاپیوں کی خریداری کے معاملے میں رپورٹ ہوئی ہے، جہاں اطلاعات کے مطابق اس ادارے کومتعلقہ افسران کی جانب سے ساڑھے 5ملین روپے مالیت کاٹیکہ لگادیاگیاہے اورمن پسند وینڈرزسے امتحانی کاپیوں کی خریداری کے لیے اس کاٹینڈرجاری نہیں کیاگیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جن افسران کی جانب سے کاپیوں کی خریداری میں مذکورہ بدعنوانی رپورٹ ہوئی ہے وہ اس قدر بااثر ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے خلاف کسی براہ راست کارروائی سے اجتناب کرتے ہوئے محکمہ یونیورسٹیز اینڈبورڈ کواس معاملے کومحکمہ اینٹی کرپشن کے حوالے کرنے کی سفارش کی تاہم محکمہ یونیورسٹیزاینڈبورڈنے جوابً میں یونیورسٹی کواس معاملے کوپہلے سینڈیکیٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔اُدھر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے مستقل اورلیاری یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلرڈاکٹرامجد سراج نے میڈیا کو بتایا کہ ہم اس سلسلے میں محکمہ یونیورسٹیزاینڈ بورڈ کومزید انکوائری کی سفارش کرسکتے ہیں کیوں کہ یونیورسٹی پر تودباؤڈالاجاسکتاہے لیکن محکمے پر دباؤ ڈالنامشکل ہوگیا۔دوسری جانب حال ہی میں محکمہ یونیورسٹیزاینڈبورڈزکاچارج چھوڑنے والے سیکرٹری نوراحمد سموں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہم نے یونیورسٹی سے کہاہے کہ پہلے وہ اس معاملے کواپنی سینڈیکیٹ میں لے جائیں پھر سینڈیکیٹ جوفیصلہ کرے اس پر عمل کریں ۔واضح رہے کہ لیاری یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلرکی عدم موجودگی اورقائم مقام وائس چانسلرکی عدم دستیابی کافائدہ اٹھاتے ہوئے محکمہ فنانس اورمحکمہ پروکیورمنٹ کے افسران کی جانب سے سالانہ اورسیمسٹرامتحانات کی کاپیاں مہنگے داموں خریدنے کے لیے اس کے پرچیز آرڈرکوکاپیوں کی تعدادکے حساب سے تقسیم کردیاتاکہ ایک معینہ حد سے کم کاپی خریدنے کے لیے ٹینڈرجاری نہ کیاجائے، جس میں یونیورسٹی کامحکمہ انجینئرنگ اورمحکمہ فنانس شامل تھا جبکہ ایک ایسے وینڈرکوبھی کاپی کی خریداری کے لیے آرڈرجاری کیاگیاجوکمپنی ”کنسٹریکشن“کے نام سے اپناکاروبارکررہی ہے جن پانچ مختلف وینڈرزسے ٹینڈرکے اجرا کے بغیرکاپیاں خریدی گئیں۔ انہیں 3 مختلف کیٹگریز کی کاپیوں میں فی کاپی 58روپے،53روپے اور44روپے زائد اداکیے گئے جب کہ کاپیوں کی تعداد ہزاروں میں تھیں۔اس بات کاانکشاف یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلرڈاکٹرامجد سراج کی جانب سے اس سلسلے میں بنائی گئی ”آڈٹ اینڈ انسپکشن کمیٹی“کی رپورٹ میں کیاگیاہے۔ 5 رکنی اس کمیٹی کے کنوینرواجاکیفے کریم داد waja kefah karimdadتھے