عمران خان کا چیف جسٹس پر عدم اعتماد کا اظہار، بھوک ہڑتال کا اعلان


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) بانی پی ٹی آئی عمران خان نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ بانی پی ٹی آئی نے عدالت میں میڈیا سے گفتگو میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ عمران خان نے جیل میں بھوک ہڑتال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء سے مشاورت کے بعد بھوک ہڑتال کی حتمی تاریخ کا اعلان کروں گا۔
عمران خان نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی اور میرے مقدمات کے ہر بینچ میں قاضی فائز عیسیٰ کیسے آ جاتے ہیں۔ میرے وکلا نے قاضی فائض عیسی کی ہر بینچ میں موجودگی پر اعتراض کیا ہے۔ اب ہمیں شک ہے کہ ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔ جسٹس گلزار کے 5 رکنی بینچ نے بھی کہا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ ہمارے کیس نہیں سن سکتے۔ ہمارے وکلا کا خیال ہے کہ ہمیں انصاف نہیں ملے گا اس لیے ہمارے کیسز کسی اور کو سننے چاہیے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت کیسز کی سماعت کے دوران پسند اور ناپسند نہیں ہونا چاہیے۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جیل میں بیٹھے کرنل اور میجر سارا نظام چلا رہے ہیں۔ میری ٹیم کل مجھ سے ملاقات کے لیے ائی تھی۔ تین گھنٹے تک وہ اڈیالہ جیل کے باہر اور میں اندر ان کا انتظار کرتا رہا۔ کل مجھے اپنی ٹیم سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ اگر ملاقات ہوتی تو میں ان کے اختلافات ختم کروا دیتا۔سپرٹینڈنٹ نے جیل میں بیٹھے کرنل کے کہنے پر میری ٹیم سے ملاقات نہیں کروائی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے پاکستان ہائبرڈ تھا اب اتھرٹیٹو پر چلا گیا ہے اب ملک میں ڈکٹیٹر شپ ہے۔ ساری دنیا کو پتا ہے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے یہ کانگرس اور اقوام متحدہ کی قرارداتوں کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ہم افغانستان پر حملہ کر دیں گے جبکہ ان کے کرنل اور میجر یہاں جیل میں بیٹھے ہوئے ہیں۔سپرٹینڈنٹ جیل ان کی نوکری کر رہا ہے یہ جب کہتے ہیں وہ میری میٹنگ کینسل کر دیتا ہے۔
عمران خان نے کہ کہ یہ پاگل ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ میری پارٹی کمزور ہوگی انہیں پتہ ہی نہیں جس پارٹی کا ووٹ بینک ہو وہ کمزور نہیں ہوتی۔ جنرل عاصم منیر نے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا جنازہ نکال دیا ہے بجٹ کے بعد ان کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ ان کے ساتھ وہ ہو گیا ہے جو دشمن کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ میں جیل سے پارٹی قائدین کو پیغام دے رہا ہوں کہ اپنے اختلافات عوام میں لے کر نہ جائیں۔ اگر اپ اختلافات عوام میں لے کر جائیں گے تو اپ اپنے اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ایس ائی ایف سی ملک ٹھیک نہیں کر سکتی ملک کے مسائل کا حل صاف شفاف انتخابات میں ہے۔ برصغیر میں 1990 تک پاکستان سب سے اگے تھا لیکن اج سب پاکستان سے اگے ہیں اور ہمارا ملک میانمار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ موجودہ بحران سے صرف وہ پارٹی ملک کو نکال سکتی ہے جس کے ساتھ عوام ہوں۔ ملک میں ایلیٹ کا بجٹ اگیا ہے۔ لوگ پٹ گئے ہیں ملک کو صرف ایلیٹ کنٹرول کر رہی ہے۔صدر کا کیا کام ہے کہ وہ صدر ہاؤس کے اخراجات بڑھا دے بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے حوالے سے قومی اسمبلی میں عمر ایوب، سینیٹ میں شبلی فراز سمیت علی امین گنڈا پور بڑے تگڑے بولے اور کوشش کی۔ مذاکرات اور بات چیت کا وقت 8 فروری کو گزر گیا ہے۔اوپر بیٹھے طاقتور یہ چاہتے تھے کہ میں گارنٹی دوں کہ اقتدار میں ا کر ان پر ہاتھ نہیں ڈالوں گا۔ مذاکرات تب ہوتے ہیں جب کسی مسئلے کا حل نکلے ہم شہباز شریف سے مذاکرات کریں گے ان کی حکومت چلی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پورا ملک کہہ رہا ہے کہ سب سے بڑا فراڈ الیکشن کروایا گیا لیکن چیف جسٹس فائز عیسی الیکشن کمیشن کی تعریف کر رہے ہیں۔ جس الیکشن کمیشن نے ملک کا سب سے فراڈ الیکشن کرایا ہمیں انصاف کے لیے اسی کے پاس بھیجا جا رہا ہے۔ اگر اس فراڈ الیکشن کی تحقیقات ہو جاتی ہیں تو چیف الیکشن کمشنر پر ارٹیکل 6 لگ جائے گا۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جیل والے پریشان ہیں کہ مجھے حمود الرحمن رپورٹ اڈیالہ جیل کے اندر کیسے مل گئی وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ ایک سال ہونے والا ہے مجھے چکی میں ٹھہرایا ہوا ہے سخت گرمی کے باوجود میں اس کی شکایت نہیں کروں گا۔ میں وقت کے یزید کی کبھی غلامی نہیں کروں گا جیل میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔ جب تک زندہ ہوں میں یہ جنگ لڑوں گا میں لا الہ الا اللہ کہنے والا ہوں۔ مریم نواز نواز شریف اور خواجہ اصف کے بیانات کی ویڈیوز موجود ہیں خیبر پختون خواہ حکومت کو کہوں گا کہ ان کی ویڈیوز نکال کر ان پر مقدمات درج کریں۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات مضبوط نہ ہونے تک ٹی ٹی پی سے جنگ نہیں جیت سکتے۔ اپ طالبان کے خلاف اپریشن کریں گے وہ بھاگ کر افغانستان کے اندر چلے جائیں گے۔جب تک آپ کو افغانستان سے تعاون نہیں ملے گا آپ اس اپریشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔بلاول بھٹو اور ہمارا وزیر خارجہ افغانستان کیوں نہیں گیا۔ جب تک افغان حکومت ساتھ نہ دے 2500 کلومیٹر طویل بارڈر پر یہ جنگ جیتنا ممکن نہیں۔ ہمارے دور میں این ڈی ایس اور غنی حکومت آپس میں ملے تھے میں اس کے باوجود افغانستان گیا اور بات چیت کی۔