کچی آبادیوں کے لوگ روزگار کے مواقع سے محروم کیوں؟


لاہور(قدرت روزنامہ) حکومت کی طرف سے خصوصی افراد اور خواجہ سراؤں کے لیے ہنرمندی کے پروگرام شروع کیے جاتے ہیں لیکن خانہ بدوش نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے وہ بھیک مانگنے، کوڑا اکٹھا کرنے اور کھیل تماشے دکھانے میں لگ جاتے ہیں۔
خانہ بدوشوں کی ویلفیئر کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا کہنا ہے کہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے خانہ بدوش نوجوانوں اور کم عمر لڑکوں کی بڑی تعداد منشیات کا استعمال شروع کر دیتی ہے۔ بتیس سالہ سلیم بند روڈ لاہور میں خانہ بدوشوں کی بستی میں رہتے ہیں۔ وہ روزانہ قریبی علاقے سے کوڑا اکٹھا کرتے اور اس میں سے کارآمد سامان جن میں پلاسٹک کی بوتلیں اور لوہے کے ٹکرے شامل ہیں انہیں الگ کرتے اور مقامی کباڑیے کو فروخت کرتے ہیں۔
سلیم نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، وہ کوڑا جمع کرکے روزانہ سات، آٹھ سو روپے کما لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر وہ کوئی ہنر جانتے تو شاید انہیں کوڑا اکٹھا کرنے کا کام نہ کرنا پڑتا ہے۔ ایک تو وہ ان پڑھ ہیں دوسرا انہیں کوئی ہنر سیکھنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ خود تو نہیں پڑھ سکے لیکن ان کے دو بچے ایک این جی او کے اسکول میں پڑھنے جاتے ہیں۔
سلیم کی طرح خانہ بدوش بستیوں میں رہنے والے 80 فیصد نوجوان بھیک مانگتے اور کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں۔ چند ایک ایسے ہیں جو مختلف کھلونے بنانے کا ہنر جانتے ہیں جبکہ کچھ بندر اور سانپوں کے ساتھ کھیل تماشا دکھاتے اور گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔
خانہ بدوشوں کی ویلفیئر کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم گود کے سربراہ نذیر غازی نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ گود نے سن 2007 اور 2008 میں خانہ بدوش لڑکیوں کی ہنر مندی کا ایک منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس پراجیکٹ کے لیے ساؤتھ ایشیا ویمن ڈویلپمنٹ پروگرام کی طرف سے فنڈنگ کی گئی تھی۔ نذیر غازی کہتے ہیں کہ انہوں نے خانہ بدوش لڑکیوں کو ان کے ذہنی رجحان کے مطابق کام سکھائے تھے جن میں موسیقی بھی شامل ہے۔ کئی لڑکیوں نے گانا، ڈانس اور ہارمونیم سمیت موسیقی کے مختلف آلات بجانا سیکھے تھے۔
نذیر غازی نے بتایا کہ جس جگہ یہ خانہ بدوش مقیم ہیں وہاں قریب ہی ایک معروف فلم اسٹوڈیو ہے جہاں مختلف فلموں میں گانوں کی شوٹنگ کے لیے ایکسٹراز کی ضرورت ہوتی تھی۔ تربیت لینے والی خانہ بدوش لڑکیاں بطور ایکسٹرا کام کرکے اچھا معاوضہ کما رہی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ خانہ بدوشوں میں کوئی پریشر گروپ نہیں ہے جو متحد ہو کر اپنی بات منوا سکیں، یہ بس اپنے خاندان اور قبیلے سے ہی جڑے رہتے ہیں، کوئی ہنر سیکھنے کے لیے اپنے بچوں کو گھروں سے دور بھی جانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
سرچ فار جسٹس کے سربراہ افتخار مبارک نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ووکیشنل ٹریننگ کے حکومتی اداروں میں داخلے کے لیے تعلیم کی ایک شرط رکھی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے خانہ بدوش افراد تعلیم سے محروم ہوتے ہیں۔ حالانکہ آئین کا آرٹیکل 25 اے حکومت کو پابند کرتا ہے کہ 5 سے 15سال تک کی عمر کے بچوں کو فری اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ خانہ بدوش بچوں کو ہنرمند بنانے کے لیے کمیونٹی کی سطح پر کسٹومائز حکمت اپنانے کی ضرورت ہے۔ خانہ بدوش نوجوانوں کو ایسے ہنر سکھانے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہیں جن میں تعلیم ضروری نہیں ہے۔ تاہم اس میں چائلڈ لیبر کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
افتخار مبارک نے مثال دی کہ لاہور کے علاقے شاہدرہ میں سرچ فار جسٹس نے امینہ پروٹیکشن اینڈ لرننگ سینٹر بنایا ہے جہاں ناصرف خانہ بدوش بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے بلکہ 18 سال سے بڑی عمر کے نوجوانوں خاص طور پر لڑکیوں کو ان کا خود کا کام شروع کرنے کے لیے بزنس ماڈل دیے جا رہے ہیں جن میں سلائی، کڑھائی، بیوٹیشن اور گھریلو دستکاری شامل ہے۔
پنجاب سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے محکمہ اسپیشل پرسنز، خواتین، خواجہ سراؤں اور بزرگوں کی ویلفیئر کے لیے کام کر رہا ہے لیکن خانہ بدوشوں کے لیے کوئی پراجیکٹ نہیں ہے۔ اسی طرح، پنجاب ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ترجمان نے بتایا کہ ادارہ مختلف ہنر سکھانے کے مواقع فراہم کر رہا ہے اور اس کے لیے کسی خاص کمیونٹی، جنس، علاقے سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے کوئی بھی نوجوان جو بنیادی شرائط پوری کرتا ہے وہ ٹریننگ حاصل کرسکتا ہے۔