جد و جہد جاری رہے گی، 12لوگوں کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دونگا،جام کمال

(قدرت روزنامہ)وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے مستعفی ہونے سے انکار کردیا . جام کمال کا کہنا تھاکہ 12 لوگوں کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دوں گا، ہم جدوجہد جاری رکھیں گے .

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کےاکثر ارکان میری حمایت کررہے ہیں جبکہ مجھے اتحادیوں کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے . جام کمال کا کہنا تھاکہ کچھ ساتھی 4 بار پہلے بھی مجھے ہٹانے کی کوشش کر چکے ہیں تاہم ہماری کوشش ہے کہ وزرا اپنے استعفے واپس لیں . وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ وزرا نے استعفے واپس نہیں لیے تو ہم نئے وزیربنائیں گے . دوسری جانب گورنربلوچستان سید ظہور آغا نے صوبائی کابینہ میں شامل 3 ناراض وزرا کے استعفے منظور کرلیے . ذرائع کے مطابق جن وزرا کے استعفے منظور ہوئے ہیں اُن میں ظہوربلیدی، سردار عبد الرحمان کھیتران اوراسد بلوچ شامل ہیں . وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان ڈٹ گئے، کہتے ہیں کہ میں کیوں استعفیٰ دوں کسی بلیک میلنگ میں نہیں آو¿نگا،جب تک میرے پاس اکثریت ہیں کسی صورت استعفیٰ نہیں دونگا،جام کمال خان کہتے ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اکثریت اور اتحادی میرے ساتھ کھڑے ہیں،دوست ناراض ضرور ہیں لیکن اقلیت میں ہیں،اقلیت کا فیصلہ اکثریت پر حاوی نہیں ہونے دوں گا،ناراض اراکین اپوزیشن سے باربار ملکر تحریک عدم اعتماد کی دھمکی نہ دیں راستہ کھلا ہے ہمت کرے میں تب بھی ان کا مقابلہ کروں گا . وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے کہا ہے کہ حکومت نے 3 سالہ دور میں صوبے کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان میں تعلیم، صحت ، انفراسٹرکچر کی بہتری اور دیگر حوالوں سے جو کام کروائے ہیں وہ قابل تحسین ہیں . اپوزیشن سمیت تمام ممبران کو برابری کی بنیاد پر فنڈز دیئے ہیں پارٹی صدارت اور امور کے حوالے سے مشاورت اور گفت و شنید سے معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں اور نہ ہی بات چیت کے لئے دروازے بند کئے جاتے ہیں چند لوگوں کی خواہش پر تبدیلی سے اپوزیشن اور حکومت دونوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا جس کا بلوچستان متحمل نہیں ہوسکتا میرے دروازے بحیثیت چیف ایگزیکٹو منتخب نمائندوں سمیت سب کیلئے کھلے ہیں کسی کے دباﺅ میں آکر مستعفی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارے اتحادی میرے ساتھ ہیں اور ہم تمام آپشنز استعمال کرتے ہوئے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے . ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینئر صحافیوں کے وفد سے گفتگو کے دوران کیا اس موقع پر سینیٹر انوارالحق کاکڑ، سینیٹر آغا عمر جان احمد زئی، صوبائی مشیر بلدیات نوابزادہ گہرام بگٹی، عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی، پرنس احمد علی بلوچ، صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی، نوید کلمتی ، خلیل جارج ، بلال کاکڑ، فائق خان جمالی سمیت دیگر بھی موجود تھے . میر جام کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی قیام سے لیکر اب تک مختلف مسائل سے دو چار رہی ہے اور 2018ءسے ہی اس میں اونچ نیچ آتے رہے ہیں لیکن ہم نے بلوچستان کی پسماندگی اور لوگوں میں پائے جانے والے احساس محرومی کو دور کرنے کے لئے پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لیا اور قلیل مدت میں کامیاب ہوکر برسر اقتدار آئے اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر حکومت بنائی کیونکہ ہماری شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ تمام معاملات تحفظات اور خدشات کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جائے لیکن کچھ ساتھی ہم سے نالاں رہے ہیں کیونکہ جب کسی کے پاس کوئی منصب یا ذمہ داری ہوتی ہے تو وہ ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتا کوئی نہ کوئی کسی بات پر نالاں رہتا ہے اور گلے شکوے ہوتے رہتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملکر صوبے کی بہتری کے لئے کام کا آغاز کیا اور بلا تفریق اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن کے نمائندوں کو فنڈز دیئے تاکہ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر ، روڈ، ڈیمز اور اجتماعی نوعیت کے منصوبوں پر فنڈز خرچ کرکے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائیں جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ہمارے منصوبے انفرادی کی بجائے اجمتاعی نوعیت کے تھے اور تمام معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں کیونکہ ہم نے وزیر اعلیٰ ہاﺅس میں صبح سے لیکر دوپہر دفتری امور کی انجام دہی، میٹنگز اس کے بعد رات گئے تھے منتخب اراکین قومی، صوبائی اسمبلی، وزراءاور دیگر نمائندوں کے لئے کام کرتے تھے کیونکہ بلوچستان میں ترقیاتی حوالوں سے تمام علاقوں کے ایک جیسے مسائل ہیں اس لئے ہم نے سنجیدگی کے ساتھ تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے کام کا آغاز کیا . انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس میں قانونی قواعد و ضوابط کو پورا نہیں کیا گیا جس کے بعد ہماری جماعت کے ساتھی بھی ناراض اراکین کی شکل میں سامنے آئے میں نے تمام ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں تاکہ ا ن کے تحفظات اور خدشات کا جائزہ لے سکوں کسی کے بھی تحفظات اور خدشات اجتماعی نوعیت کے منصوبوں اور وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نہیں تھے بلکہ معمولی نوعیت کے تھے جن کے ذریعے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا جاسکتا انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے ہمارے دوستوں سے جو وعدے کئے گئے اس کے بعد انہوں نے اپنے استعفےٰ گورنر کو پیش کئے . اب ان کی وہ قسم بھی پوری ہوگئی ہے لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے ساتھی کیسے ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ہم نے قانون کے مطابق وزراءاور مشیر بنانے ہیں نہ کہ سابقہ دور کے وزراءاعلیٰ کے دور حکومت میں 40 سے زائد وزراءکابینہ کا حصہ ہوتے تھے لیکن اب اٹھارویں ترمیم کے بعد 19 وزراءاور مشیر رکھنے ہیں میری یہی کوشش رہی ہے کہ تمام دوستوں اور ممبران کو ساتھ لیکر چلوں تاکہ سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے . اس وقت بھی اتحادیوں سمیت 26 ممبران میرے ساتھ ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہم سسٹم کو بہتر طور پر چلائیں گے اور درجن بھر اپنے ساتھیوں کے دباﺅ کے تحت ان کی مرضی و منشاءپر نہیں چل سکتے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سردار صالح بھوتانی اور میرا علاقہ ایک ہے وہ میرے لئے قابل احترام ہیں اور ان کی غمی، خوشی میں بھی شریک ہوتا ہوں لیکن سیاسی معاملات کچھ اور ہیں جن کو سیاسی طریقے سے ہی چلایا جاسکتا ہے . انہوں نے کہا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں اور نہ ہی سیاست میں بات چیت کا راستہ بند کیا جاتا ہے . انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے جب الیکشن ہوئے تو اس وقت بھی کہا تھا کہ مجھ پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ پارٹی صدارت کے ذریعے پارٹی کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ورکروں کو بھی وقت دینا پڑتا ہے اور حکومتی امور بھی ساتھ ساتھ دیکھنے پڑھتے ہیں . تین سالوں میں ہم نے صوبے کی بہتری اور مسائل کے حل کے لئے اپنا کلیدی کردار اد اکیا ہے موجودہ صورتحال اور سیاسی بحران کے حل کے لئے پارٹی کے بانی ممبران اور قیادت مختلف مواقع پر معاملات کے حل کے لئے کردار ادا کرتی رہی ہے کیونکہ معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں اب بھی ہماری کوشش ہے کہ تمام معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جائے ہم نے بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد بھی اسی لئے رکھی تھی کہ ہم تمام فیصلے اپنے گھر میں بیٹھ کر کریں اور وفاق میں بیٹھ کر ملک کی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں اور الحمد اللہ اس میں ہم کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں . ہمارے ناراض دوست وزارتوں سے مستعفی ہونے کے بعد واپس آسکتے ہیں . کیونکہ انہوں نے جو وعدے کئے تھے . وہ پورے ہوگئے وہ ہمارے بھائی ہیں صوبے میں کسی بھی منتخب نمائندے کے علاقے میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی کسی غیر منتخب نمائندے کے ذریعے کوئی کام کرایا ہے بلکہ صوبہ بھر میں اجتماعی نوعیت کے اسکیمات شروع کرائی ہےں جو کسی خاص علاقے یا حلقے میں نہیں بلکہ بلوچستان بھر میں کام کرائے ہیں . سردار صالح بھوتانی کی اسکیمات جو انہوں نے تجویز کی تھی وہ پی ایس ڈی پی میں شامل کی گئیں جبکہ میر عبدالقدوس بزنجو نے اپنے حلقے کے لئے کوئی اسکیم نہیں دی اور نہ ہی وہ رابطے میںہیں بلکہ انہوں نے ہم سے اپنا رابطہ بھی منقطع کر رکھا ہے ہم نے بی اے پی کے کسی ناراض رکن کے حلقے میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کی بلکہ انہیں فنڈز دیئے ہیں . سردار صالح بھوتانی کے حلقہ انتخاب حب میں اجتماعی نوعیت کے اسکیمات جن میں ڈیمز ، کلچر سینٹر اور دیگر منصوبے شروع کئے اس صورتحال کے باوجود ہمارے ناراض ساتھی حلقوں میں مداخلت کو جواز بناکر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں حالانکہ ہم نے تین سالوں کے دوران اپوزیشن کے حلقوں میں بھی ریکارڈ فنڈز دیئے ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی مسائل کے حل اور معاملات کی بہتری کے لئے پارٹی کے بانی اراکین اور دیگر ساتھیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا تاکہ ناراض اراکین اپنے تحفظات کا اظہار کھل کر کرسکیں . ہم نے ہمیشہ بلوچستان کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کئے ہیں لیکن کچھ لوگ اس صورتحال کو اچھا نہیں گردانتے اور حالات کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں میری سردار اختر جان مینگل سے رشتہ داری ہے میں نے ان کے والد کی عیادت بھی کی جبکہ مولانا عبدالواسع کی بھی عیادت کی ہے اگر میں اپنے دل میں انا یا تلخیاں رکھتا تو میں لوگوں کے غم اور خوشی میں کسی صورت بھی شریک نہیں ہوتا موجودہ حکومت کی مدت میں 18 ماہ کا عرصہ باقی ہے اگر اس وقت کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کا خمیازہ بلوچستان کو بھگتنا پڑے گا اور اس کا نقصان حکومت اور اپوزیشن کو ہوگا . ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمارے تین سالہ دور اقتدار کی پی ایس ڈی پی اور ماضی کی حکومتوں کی پی ایس ڈی پی کا موازنہ کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ہم نے اپوزیشن کو کتنے فنڈز دیئے ہیں اور سابقہ دور میں اپوزشین کو کتنے فنڈز ملے تھے . میری کوشش رہی ہے کہ میں انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو فروغ دوں تاکہ تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہوکر مسائل کے حل کو ممکن بنا سکوں . ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے ہمیشہ بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دیا ہے . انہوں نے حکومت کو مضبوط بنانے کےلئے ہر موقع پر اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے . . .

متعلقہ خبریں