چمن میں باڑ کی تنصیب اور پاسپورٹ کا نفاذ عوامی پالیسی نہیں، مولانا شیرانی
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)جمعیت کے رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب سرحد کے دونوں طرف کھلے آمد و رفت پر پابندی کا نقطہ آغاز تھا باڑ کے تنصیب کی خاموش حمایت اور اب پاسپورٹ کی شرط کی مخالفت ایک دوسرے سے متضاد طرز عمل ہے چمن بارڈر کے حوالے سے حکومت ایسی حکمت عملی وضع کرے جس سے حکومت کی ضرورت بھی پوری ہو اور لوگوں کو درپیش مشکلات بھی کم ہو انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ لوگوں کو معقولیت کی بنا پر اصل حقائق سے آگاہ کریں جزبات کو بھڑکانے اور اشتعال دلانے پر مبنی تقریریں کسی درد کی دوا ہے اور نہ ہی یہ لوگوں کی خیر خواہی کا تقاضا ہے جو جماعتیں چمن پرلت کے مطالبات کی حمایت میں پیش پیش ہیں ان سے یہ پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے اب تک ذمہ دار حلقوں کے ساتھ گفت و شنید کے نتیجے میں پرلت کے مطالبات کو تسلیم کرانے میں کس حد تک پیش رفت کو ممکن بنایا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ادارہ جاتی مجبوریوں اور بین الاقوامی ضرورتوں کا احساس ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ دار حضرات کی شخصی ہمدردی عوام کے ساتھ ہونی چاہیے حکومتی پالیسیاں عوام کی سہولت کے لئے بنتی ہیں پبلک کو مشکلات میں ڈالنے کے لئے نہیں، حکومتی پالیسیوں کو ایسے نہج پر تشکیل دیا جانا چاہیے جس سے حکمران طبقے کے بارے میں عوام کے مشکلات کے حوالے سے بے رحمی اور سنگ دلی کا تاثر پیدا نہ ہو انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان ویزے میں رعایت اور بارڈر ٹریڈ کے تحت خصوصی استثنائی قوانین کا تصور موجود ہے ایسے خصوصی حالات میں کہ بارڈر لائن کے کھنیچے جانے سے لوگوں کے قبرستان اور مسجد تک تقسیم ہوں اور خونی رشتہ داروں تک کا بھی آپس میں ملنا مشکل ہوجائے حکومتوں کو عام قوانین سے ہٹ کر لائحہ عمل بنانا پڑتا ہے ۔