حکومت نے آئی ایس آئی کو فون کالز اور پیغامات ’انٹرسیپٹ‘ کرنے کی اجازت دے دی
خفیہ ادارے کی جانب سے 18 یا اس سے زائد گریڈ کے افسران ہی کال ریکارڈ کرنے یا سننے کے عمل کے لیے نامزد کیے جائیں گے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستانی حکومت نے ’قومی سلامتی کے مفاد‘ اور ’جرائم کے خدشات‘ کے پیش نظر فوج کے خفیہ ادارے (انٹرسروس انٹیلی جنس) آئی ایس آئی کو فون کالز اور پیغامات ’انٹرسیپٹ‘ کرنے کی اجازت دے دی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کیبنٹ ڈویژن کے ایک افسر نے اس نئی پیش رفت سے متعلق تصدیق کی اور بتایا کہ اس کا باقاعدہ نوٹی فکیشن بھی جاری ہوچکا ہے۔رپورٹ کے مطابق 8 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشن میں واضح کیا گیا کہ حکومت نے آئی ایس آئی کے افسران کو یہ اختیار پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن ایکٹ 1996 کے سیکشن 54 کے تحت تفویض کیا۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ قومی سلامتی کے مفاد میں اور جرائم کے خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ اسی نوٹی فکیشن کے مطابق خفیہ ادارے کی جانب سے 18 یا اس سے زائد گریڈ کے افسران ہی کال ریکارڈ کرنے یا سننے کے عمل کے لیے نامزد کیے جائیں گے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے ان کی اپنے وکیل سے گفتگو افشا کیے جانے کا معاملہ زیر سماعت ہے۔اس معاملے کی سماعت کے دوران یہ معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ نامی ایک مخصوص نظام کے تحت خفیہ اداروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔
عدالت نے اس معاملے میں اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ اسے بتایا گیا ہے کہ ملک میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیوں نے پاکستانی خفیہ اداراوں کو اپنے دو فیصد (تقریباً 40 لاکھ) صارفین کے فون کال، میسجز اور دیگر ڈیٹا تک ’لافُل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم‘ کے ذریعے رسائی دے رکھی ہے۔
عدالت نے اس معاملے میں اپنے حکم نامے میں یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عدالت کو بتایا تھا کہ کسی بھی ایجنسی کو نگرانی کی اجازت نہیں دی گئی اور حکومتِ پاکستان عدالت میں رپورٹ جمع کروائے کہ ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ لگانے کا ذمہ دار کون ہے جو شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔