پاکستانی مارکیٹ میں مشہور گاڑیاں ناکام کیوں ہوئیں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں گزشتہ برسوں کے دوران بہت سی ایسی گاڑیاں متعارف کرائی گئیں جو بدقسمتی سے مختلف وجوہات کی بنا پر مارکیٹ میں ناکام رہیں، اس میں حکومت کی عدم توجہی، کمپنی کے بحران، اور انتہائی مہنگے اسپیئر پارٹس جیسے عوامل شامل تھے۔
سوزوکی لیانا
سوزوکی لیانا کو جب لانچ ہوئی تو اسے فیملی کے لیے ایک اچھی اور آرام دہ کار سمجھا جاتا تھا۔ سوزوکی کمپنی نے ابتدائی طور پر اس کار کو تھائی لینڈ سے سی بی یو کے طور پر درآمد کیا، بعد میں پاکستان میں اس کی مقامی طور پر مینوفیکچرنگ شروع کر دی گئی۔ اس گاڑی نے ہونڈا سٹی اور ٹویوٹا کرولا کے مقابلے میں کوالٹی، کیبن اسپیس اور پرفارمنس میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

تاہم اس کا ای ایف آئی انجن ، ای سی یو اور الیکٹرانک پاور اسٹیئرنگ مقامی مارکیٹ کے میکانکس کے لیے بہت پیچیدہ تھے۔ ماہرین کے مطابق گاڑی کی تشخیص اور مرمت میں یہی دشواری اس کی ناکامی کا سبب بنی ، جس کی وجہ سے میکانکس یہی کہتے کہ ’لیانا مت لینا‘۔ یہ گاڑی جلد خراب ہونے کی وجہ سے بھی بدنام تھی، میکانکس یا سوزوکی ڈیلرشپ کے بار بار چکر کاٹنا پڑتے تھے۔
سوزوکی سیاز
سوزوکی کمپنی کی تیار کردہ سیاز کو اپنے رئیر ہیڈ اسپیس اور بھاری قیمت کے باعث مارکیٹ میں مسائل اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2014 میں سوزوکی کمپنی نے اس کار کے سی کے ڈی یونٹس کی تیاری شروع کی لیکن ایل ای ڈی ہیڈ لائٹس، ڈیجیٹل کلائمیٹ کنٹرول اور شور انسولیشن سمیت کئی فیچرز کو ڈاؤن گریڈ کر دیا۔

اس گاڑی کی فروخت سست رہی اور 2017 میں قیمتوں میں اضافے کے بعد سیاز کبھی بھی مارکیٹ میں اپنے قدم دوبارہ جمانے میں ناکام رہی۔
ایف اے ڈبلیو وی۔2
ایف اے ڈبلیو وی۔2گاڑی 1.3 ایل ہیچ بیک سب سے سستی ہونے کے ناطے کم بجٹ رکھنے والے صارفین کے لیے ایک اچھا آپشن تھا۔ اس گاڑی کو 2017 میں پاکستان میں ایک ایسے وقت لانچ کیا گیا جب یہاں چینی گاڑیوں کی مقبولیت کچھ خاص نہ تھی، چینی گاڑی ہونے کے باعث اس کی مقبولیت میں اضافہ نہ ہو سکا۔

مزید برآں اس کے غیر پرکشش ڈیزائن اور کم معیار کے پلاسٹک انٹیریئر نے صارفین کو مزید پریشان کیا، اگر بہتر ڈیزائن کے ساتھ ایف اے ڈبلیو وی 2 کو لانچ کیا جاتا تو اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے تھے۔
شیورلیٹ آپٹرا
شیورلیٹ آپٹرا 2002 میں لانچ ہونے والی ایک امریکی کار تھی جسے نیکسس آٹوموٹو پرائیویٹ لمیٹڈ نے درآمد کیا تھا۔ اگرچہ یہ گاڑی اپنے ڈرائیو کوالٹی، کیبن اسپیس کی وجہ سے قابل ستائش تھی، لیکن سی بی یو اسٹیٹس اور امریکی درآمد کی وجہ سے اسپیئر پارٹس کی بھاری قیمتوں نے اس کی کامیابی میں رکاوٹ ڈالی۔

امریکی معیار پر پورا اترنے اور اس کا ڈیزائن بھی معیاری ہونے کے باوجود مہنگے اسپیئر پارٹس پاکستانی مارکیٹ میں اس کی ناکامی کا باعث بنے۔
یونائیٹڈ براوو اور پرنس پرل
پاکستان میں یونائیٹڈ براوو اور پرنس پرل دونوں کی قسمت ایک جیسی ہی تھی۔ کمپنیوں کا مقصد سستی 800 سی سی سوزوکی مہران کا متبادل متعارف کروانا تھا جس میں پاور اسٹیئرنگ، پاور ونڈوز، ایئر کنڈیشننگ اور پرکشش ڈیزائن جیسے فیچرز شامل تھے۔ تاہم بجٹ دوست قیمت کو برقرار رکھنے کے لیے کمپنیوں نے اس کی تیاری کے معیار پر سمجھوتا کر لیا۔

ان گاڑیوں میں باڈی پینل کے خلا، نامناسب طریقے سے نصب، کم معیار کے پرزے اور ہیڈ لائٹس جو مہینوں کے اندر ہی ختم ہو گئیں۔ ان مسائل کی وجہ سے ان گاڑیوں کی دوبارہ فروخت کی قیمت کم ہو گئی اور یوں یہ پاکستانی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہیں۔