چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مجھ سے متعلق مقدمات کی سماعت نہ کریں، عمران خان


نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیل پر عمران خان کا تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی انٹراکورٹ اپیل سے متعلق تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا جبکہ سابق وزیراعظم نے تحریری جواب میں اپیلیں خارج کرنے سمیت چیف جسٹس پاکستان پر اعتراض اٹھاتے ہوے کیس سے الگ ہونے کی بھی استدعا کی۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائے گٸے تحریری جواب میں بانی پی ٹی آٸی نے حکومت کی اپیلیں خارج کرنے کی استدعا کر دی۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے مؤقف اپنایا کہ کسی شخص کی کرپشن بچانے کے لیے قوانین میں ترامیم کرنا عوامی مفاد میں نہیں، کرپشن معیشت کے لیے تباہ کن اور اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں، مجھ سے دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم کا فائدہ آپ کوبھی ہو گا مگر میرا مؤقف واضح ہے یہ میری زات کا نہیں ملک کا معاملہ ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ اسی طرح دبئی لیکس پر کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں جس میں مختلف پبلک آفس ہولڈرز اور ان لوگوں کی آف شور جائیدادوں کا انکشاف ہوا جنہیں سرکاری خزانے سے ادائیگی کی جاتی ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی کو یہ ظاہر کرنا چاہیئے کہ انہوں نے دبئی میں جائیداد خریدنے کے لیے رقم کیسے کمائی اور کن ذرائع سے بیرون ملک بھیجی (چاہے یہ منی لانڈرنگ سے ہو یا کسی اور طریقے سے)۔
سابق وزیراعظم کے مطابق نواز شریف، زرداری خاندان، راؤ انوار اور کئی سابق جرنیلوں کی جائیدادیں بھی بے نقاب ہو چکی ہیں، نیب یا ایف آئی اے کو ان کیسز کی فوری انکوائری کرنی چاہیئے تھی لیکن نیب ایسا نہیں کر رہا کیونکہ انہیں میرے خلاف خصوصی طور پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، انصاف کا یہ منتخب نفاذ اس بدعنوانی کا واضح اشارہ ہے جو ہمارے نظام میں جڑ پکڑ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے بیرون ملک اثاثہ جات ہوں تو ان کی تفصیلات پہلے ایم ایل اے کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی لیکن اس کو بھی ختم کردیا گیا، اس سے پہلے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری فرد پر تھی کہ ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مماثل ہو، نئے قانون کے تحت نیب کو ثابت کرنا ہوگا کہ پیسہ کرپشن کے ذریعے کمایا گیا، پبلک آفس ہولڈرز کی آمدنی کے ذرائع معروف ہیں، اور اگر کوئی رقم ان کے خاندان یا ملازمین کے نام ظاہر ہوتی ہے، تو ان سے اس کی اصلیت ثابت کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔
عمران خان نے تحریری جواب میں بتایا کہ کرپشن سے پاک پاکستان مزید سرمایہ کاری کو راگب کرے تاہم ان ترامیم کا مقصد ملکی اداروں کو کمزور کرنا اور طاقتوروں کو بچانا ہے، سپریم کورٹ کو ان سب معاملات کو مد نظر رکھنا چاہیئے۔
بانی چیئرمین عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی آئین کے اندر رہ کر کرنی چاہیئے، نیب اگر اختیار کا غلط استعمال کرتا ہے تو ترامیم اسے روکنے کی حد تک ہونی چاہئیں، اختیار کے غلط استعمال کی مثال میرے خلاف نیب کا توشہ خانہ کیس ہے، نیب نے میرے خلاف کیس بنانے کے لیے ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہار کو 3 ارب 18 کروڑ کا بنا دیا۔
سابق وزیراعظم نے چیف جسٹس پر اعتراض اٹھاتے ہوے کیس سے الگ ہونے کی بھی استدعا کی۔ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز کی تقسیم والے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے درخواست کی کہ چیف جسٹس ان سے متعلق مقدمات کی سماعت نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میرے میرے مقدمات سے خود کو الگ کرلیں، ماضی میں کرپشن کرنے والوں نے قوانین اور پارلیمنٹ کو اپنی ڈھال بنایا اور کرپشن کو بچانے کے لیے کی گئی ترامیم عوام کا قانون پر سے اعتبار اٹھا دیتی ہیں۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ قوانین کا مقصد کسی فرد واحد کےلیے نہیں بلکہ عوام کے لیے ہونا چاہیے۔ اور سپریم کورٹ کو حقائق کے سامنے آنکھیں بند نہیں کرنی چاہیئے۔