ترکیہ: زمین میں پڑنے والے ’پراسرار‘ گڑھوں کی حقیقت کیا ہے؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ترکیہ کے علاقے قونیا کی سرسبز و شاداب زمین میں پڑنے والے پراسرار گڑھوں نے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا ہے، کوئی اس کی وجہ زیر زمین پانی کے ذخائر کے بڑھتے ہوئے استعمال کو قرار دے رہا ہے اور کوئی اسے موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دے رہا ہے تاہم ان پراسرار گڑھوں نے کسانوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔
قونیا کے ایک کسان اور گلہ بان مصطفیٰ آکار کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ اپنے کھیتوں میں دن بھر کی سخت محنت کے بعد تھک ہار کر اپنے بھیڑوں کے شیڈ کے قریب درخت کے سائے میں آرام کر رہے تھے، جب وہ کچھ سستانے کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے تو ان کی نظر قریب ہی اچانک ایک پراسرار گڑھے پر پڑی جو انہوں نے یہاں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اچانک نمودار ہونے والا یہ پراسرار گڑھا تقریباً 7 میٹر چوڑا تھا، کئی فٹ گہرا تھا، اس گڑھے کی پراسرار شکل نے انہیں اور بھی حیران کر دیا کیوں کہ ایسا لگتا تھا کہ اسے کسی بڑی مشین سے گولائی میں کاٹ کر بنایا گیا ہو۔
ایک اور کسان فتح سک کہتے ہیں کہ انہیں ہر وقت یہی خدشہ رہتا ہے کہ وہ اپنی زرعی زمین میں ٹریکٹر چلاتے ہوئے کہیں ایسے کسی پراسرار گہرے گڑھے میں گر کر موت کے منہ میں نہ چلے جائیں۔

فتح سک کا تعلق قونیا کے ضلع کراپینار سے ہے، وہ اپنی زرعی زمین سے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی زرخیز زمین میں پہلے ہی 2 بڑے گڑھے پڑ چکے ہیں۔
فتح سک کا مزید کہنا ہے کہ انہیں ہمیشہ یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ ان کی زمین میں کسی بھی وقت گڑھا بن سکتا ہے۔ اس خدشے کے باوجود کام کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ان کا ذریعہ معاش ان کی زرعی زمین ہی ہے۔
ترکیہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وسطی اناطولیہ میں صدیوں سے گڑھے پڑ رہے ہیں لیکن حالیہ عرصے کے دوران ان گڑھوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین ان پراسرار گڑھوں سے متعلق ایک رائے یہ رکھتے ہیں کہ ان گڑھوں کے پڑنے کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی خشک سالی ہے جس کے باعث زیر زمین پانی کے استعمال میں اضافہ ہے۔
ترکیہ کے سطح مرتفع کے علاقے قونیا کے قریباً سبھی قصبوں کے کسانوں اور لوگوں نے اس طرح کے پراسرار گڑھوں کی اطلاع دی ہے، یہ عجیب و غریب گڑھے بے ترتیب دکھائی دے رہے ہیں۔
سائنس دانوں نے ملک کے زرعی مرکز قونیا کے ارد گرد تقریباً 2500 ایسے پراسرار گڑھوں کی اطلاع دی ہے۔

قونیا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ان پراسرار گڑھوں پر تحقیق کی سربراہی کرنے والے فتح اللہ آرک کے مطابق ان گڑھوں میں سے تقریباً 700 ہیں جو انتہائی گہرے ہیں اور ان کی تعداد میں گزشتہ ایک دہائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان پر اسرار گڑھوں میں سے کچھ مکئی کے کھیتوں میں اور کچھ گاؤں کی گلیوں کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے گڑھے اتنے گہرے ہیں کہ ان میں سورج کی روشنی نیچے تک نہیں پہنچ سکتی۔
قونیا ٹیکنیکل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عارف دیلیکان کہتے ہیں کہ زمین میں گڑھے پڑنے کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے جس کے باعث صرف گزشتہ برس کراپینار میں 20 گڑھے نمودار ہوئے ہیں۔

عارف دیلیکان قونیا میں اب تک 640 گڑھے تلاش کر چکے ہیں جن میں سے 600 سے زیادہ ڈسٹرکٹ کراپینار میں موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ زیرِ زمین پانی میں مٹی کی آمیزش کی وجہ سے اکثر زمین میں گڑھے پیدا ہو جاتے ہیں اور ایسا بعض اوقات قدرتی طور پر ہوتا ہے اور کبھی یہ کسی انسانی سرگرمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔زمین کا یوں دھنسنے کا عمل بہت سست یا کبھی اچانک بھی ہو سکتا ہے۔