بلوچستان: ٹیوب ویلز کی سولر پر منتقلی، ’اگلی نسل کی قیمت پر موجودہ نسل کا عارضی فائدہ‘


کوئٹہ (قدرت روزنامہ)پاکستان کی وفاقی اور بلوچستان حکومت بجلی کی سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے بلوچستان میں زراعت کے لیے استعمال ہونے والے 28 ہزار سے زائد ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے جا رہی ہے۔
حکام اس منصوبے کو بلوچستان میں بجلی کے نظام میں بہتری، زمینداروں کی آبپاشی کے لیے برقی طلب کو پورا کرنے، کیسکو کے خسارے اور گردیشی قرضے میں کمی کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں۔
تاہم بیشتر ماہرین نے ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کے منصوبے کو زیرزمین پانی کے ذخائر کے لیے خطرناک قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں صوبے کے بیشتر علاقوں میں پہلے سے موجود پانی کے بحران میں اضافے کے ساتھ ساتھ تباہ کن ماحولیاتی اور سماجی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ماہرین نے اس منصوبے کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پیر کو اپنے دورہ کوئٹہ کے موقع پر اس منصوبے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین معاہدے پر دستخط بھی ہوئے۔ معاہدے کے تحت 55 ارب ر وپے کے منصوبے کے لیے 70 فیصد رقم (38 ارب 50 کروڑ روپے ) وفاقی حکومت جبکہ 30 فیصد (16 ارب 50 کروڑ روپے) بلوچستان حکومت دے گی۔
بلوچستان اور وفاقی حکومت کے ساتھ بلوچستان کے زمیندار بھی اس منصوبے کو تاریخی قرار دے رہے ہیں۔ زمیندار ایکشن کمیٹی کے سیکریٹری جنرل عبدالرحمان بازئی کا کہنا ہے کہ یہ گزشتہ 15 برس سے ہمارا مطالبہ تھا جس پر موجودہ حکومت نے عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کے بقول ’اس سے نہ صرف حکومت کو سبسڈی کی مد میں سالانہ اربوں روپے کی بچت ہوگی بلکہ فصلوں کو زمینی پانی سے سیراب کرنے کے لیے بجلی کی فراہمی کا زمینداروں کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔‘
زمیندار ایکشن کمیٹی کے عبدالرحمان بازئی نے بتایا کہ زراعت کے لیے استعمال ہونے والے ہر رجسٹرڈ ٹیوب ویل پر زمیندار کو 20 لاکھ روپے کا چیک ملے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ 20 لاکھ روپے سے 500 واٹ سے زائد کے تقریباً 80 سولر پینلز خریدے جاسکتے ہیں جس سے 30 ہارس پاور کے مشین کی مدد سے تقریباً 700 فٹ تک کی گہرائی سے پانی نکالا جاسکے گا۔
عبدالرحمان بازئی کا کہنا تھا کہ صوبے میں لوگوں کی اکثریت کا دار و مدار زراعت پر ہے تاہم گزشتہ کئی سالوں سے کیسکو کی جانب سے ضرورت کے مطابق بجلی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں اپنی تیاری کے وقت پانی نہ ملنے کی وجہ سے خشک اور درخت سوکھ رہے ہیں اور زمینداروں کو بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔
آبپاشی کے انتظام کو بہتر بنانے کے لیے شمسی توانائی کو قابل اعتما د اور پائیدار ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی توانائی کے اخراجات، گردشی قرضوں اورگرین ہاؤسز گیسز کے اخراج میں کمی کو اس کے فوائد میں شمار کیا جاتا ہے۔
تاہم اس کے زیادہ استعمال سے پانی کے ضیاع کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی سے چلنے والے آبپاشی کے نظام میں پانی کے استعمال کی مقدار اور وقت پر نگرانی کا کوئی نظام اور نہ ہی قومی و صوبائی سطح پر کوئی پالیسی موجود ہے ایسے میں اس حکومتی منصوبے کے طویل مدتی نقصانات ہو سکتے ہیں۔

ماہر آبی امور اور ایگریکلچر انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل سید بشیر احمد آغا کا کہنا ہے کہ ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی سے زیر زمین پانی کے ذخائر میں کمی کے بہت زیادہ اور درست حد تک خدشات ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پانی کے محتاط استعمال کے حوالے سے لوگوں میں شعور نہیں۔ وہ اسے مفت کا مال سمجھتے ہیں جب انہیں سولر کی صورت میں واٹر پمپ چلانے کے لیے مفت یا بہت سستی توانائی ملے گی تو وہ پانی کا استعمال مزید بے احتیاطی سے کرینگے ۔اس طرح کوئٹہ ، پشین، قلعہ عبداللہ ، قلعہ سیف اللہ، مستونگ، قلات ، سوراب اور دیگر اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح جو پہلے ہی لگ بھگ ایک ہزار فٹ تک نیچے جاچکی ہے مزید گرے گی۔
بلوچستان میں زراعت صوبے کی جی ڈی پی میں 30 فیصد حصہ ڈالتی ہے اور صوبے کے دو تہائی افرادی قوت کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق بلوچستان میں پانی کا 97 فیصد استعمال زراعت کے لیے کیا جاتا ہے۔ نہری نظام محدود ہونے کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے ٹیوب ویلوں کی مدد سے زیر زمین پانی کے استعمال پر انحصار کرتے ہیں۔
بلوچستان میں بجلی سے چلنےو الے ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے اثرات سے متعلق انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (IFPRI) اور پاکستان ایگری کلچرل کیپسٹی انہاسمنٹ پروگرام (پی اے سی ای )کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی سبسڈی کی وجہ سے 1996 سے 2017 کے درمیان زراعت کے لیے زیر زمین پانی کے استعمال میں 120 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ٹیوب ویلوں کے وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے بلوچستان کی زراعت نے ترقی کی ہے اور صوبے میں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے تاہم اس کے نتیجے میں زمینی پانی کی ضرورت سے زیادہ کانکنی ہوئی ہے جس سے شدید ماحولیاتی اثرا ت پیدا ہورہے ہیں۔
محکمہ آبپاشی بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے 20 اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح اوسطاً 400 فٹ سے نیچے ہے ۔مستونگ اور کوئٹہ میں یہ شرح800 سے 900 فٹ سے بھی نیچے ہے ۔
بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ اراضیات کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر دین محمدکاکڑ نے چند سال پہلے ایک تحقیق میں ثابت کیا تھا کہ زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال سے کوئٹہ کی زمین سالانہ دس سینٹی میٹر دھنس رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر پانی کی مائننگ کی وجہ سے زمین کے نیچے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کوئٹہ بلکہ قلعہ عبداللہ، پشین اور صوبے کے ان اضلاع میں بھی زمین بیٹھ رہی ہے جہاں ٹیوب ویلز سے بڑے پیمانے پر پانی نکالا جا رہا ہے۔
پروفیسر دین محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ زمین دھنسنے کی شرح سالانہ دس سینٹی میٹر سے برھ کر اب 16 سینٹی میٹر تک بڑھ گئی ہے۔اس کے نتیجے میں کئی مقامات پر زمین میں بڑی دڑایں پڑی ہیں اور کئی عمارتوں، سڑکوں، پلوں اور پائپ لائنوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جس مقدار سے پانی نکالا جارہا ہے اس کے مقابلے میں پانی کے ری چارج کی کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صوبے کے بیشتر علاقوں میں پینے اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں ایسے میں سولر پینلز کی فراہمی سے زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے گر جائے گی۔

پروفیسر دین محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت بھی اپنی آئندہ نسلوں کا پانی نکال کر استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے ہی بہت تباہی ہوچکی ہے اب مزید تباہی آئے گی۔ زیر زمین پانی کے ذخائر محدود ہیں اور جلد یا بدیر ختم ہوجائیں گے صوبے کے کئی علاقوں میں پہلے ہی لوگ پانی کی قلت کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ آئندہ سالوں میں آبی بحران شدت اختیار کرجائےگا۔
ان کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقلی کا زمینداروں کو عارضی فائدہ ہوگا مگر طویل مدت میں یہ بہت بڑا نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔اس منصوبے کے فائدے سے نقصانات زیادہ ہیں۔
سید بشیر آغا نے اس بات پر زور دیا کہ سولر پینلز سے چلنےوالے ٹیوب ویلز پر میٹر سسٹم لگانے چاہیے تاکہ پانی کے زیادہ اور غیر ضروری استعمال کو روکا جا سکے۔
ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (IFPRI) کی رپورٹس میں بھی ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر منتقلی سے دن کے اوقات میں بجلی کے بلا تعطل استعمال سے زیر زمین پانی کی سطح ہونے کی وجہ سے تباہ کن ماحولیاتی اثرات مرتب ہونے کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
آئی ایف پی آر آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ نسل کا قلیل مدتی فائدہ آنے والی نسل کی قیمت پر ہو گا جس سے ان کی خوراک، معاش اور سلامتی کو خطرہ ہو گا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں پانی کی سطح سالانہ 30 سے 40 فٹ کی خطرناک شرح سے گر رہی ہے اور بعض مقامات پر ناقابل واپسی ’ فوسل‘ پانی کی مائننگ تک ہورہی ہے۔ صوبے میں زیر زمین کا اوور ڈرافٹ پانی پریشان کن سطح لیول 5 تک پہنچ گیا ہے۔ اس بے دریغ استعمال کے نتیجے میں صوبے میں پانی کے 19 بیسن میں سے 10 ختم ہو چکے ہیں۔ کوئٹہ اور پشین میں پانی کی زیر زمین سطح 12 سو فٹ تک گر چکی ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ طویل خشک سالی کے ساتھ ساتھ مؤثر ریگولیٹری نظام اور ریچارج میکانزم کی عدم موجودگی میں زیر زمین پانی کے حد سے زیادہ استعمال نے بلوچستان کے لوگوں کی سماجی اور معاشی بہبود پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔ زرعی معاشی نقصانات، آبپاشی کے قدیم اور روایتی ذرائع کاریزوں اور چشموں کےخشک ہونے، پانی کا معیارخراب ہونے اور زمین کے دھنسنےجیسے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقل کی صورت میں زمیندار زیر کاشت رقبے کو بڑھاسکتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ آبپاشی کرسکتے ہیں۔ شمسی توانائی کے ساتھ زمیندار بجلی کے استعمال کو برقرار رکھ سکتے ہیں ۔
رپورٹ میں اور ان خطرات کو کم کرنے کے لیے نگرانی کے نظام کو بہتر بنانے، ادارہ جاتی اصلاحات پر زور دیتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ کم پانی استعمال کرنے اور خشک سالی سے مزاحمت کی صلاحیت رکھنے والی فصلوں کی کاشت، پانی کے استعمال سے متعلق آگاہی، آبپاشی کی جدید تکنیک اپنانے، ٹنل فارمنگ، منڈیوں تک بہتر رسائی، پیداوار کی پروسسینگ اور برانڈنگ وغیرپر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے زراعت کے لیے زیر زمین پانی کے استعمال پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ زمیندار پہلے ہی کسی نہ کسی طریقے سے اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے چھ سے آٹھ گھنٹے کے لیے پانی نکال رہے ہیں ۔ سولر پینلز کی مدد سے بھی وہ اتنے ہی دورانیے کے لیے پانی استعمال کرسکیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کو بہتر کرنے اور آبی قلت کو کم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیمز کی تعمیر کریں۔ بلوچستان کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں بھی ڈیموں کو ترجیح دی گئی ہے۔ اسی طرح کچھی کینال کے توسیعی منصوبے کے لیے مختص رقم بڑھائی گئی ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں بارشوں کا 85 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
زمیندار ایکشن کمیٹی کے عبدالرحمان بازئی کا کہنا ہے کہ پانی کی سطح برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ صوبے میں ہر سال بارشوں کا 12 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہارہا ہے جو تربیلا ڈیم میں ذخیرہ کئے گئے پانی سے دوگنی مقدار بنتی ہے ۔
بشیر آغا کہتے ہیں کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے ڈیم زیادہ کارآمد نہیں اس کے مقابلے میں چھوٹے اور لیکی ڈیم زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں ۔ لیکی ڈیم کے اندر پانی کے گہرے کنویں (انجکشن ویل ) کھود کر اس سے زیر زمین پانی کو ری چارج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لیکی ڈیم کا تجربہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں کامیاب رہا ہے اس سے پانی کی سطح میں بہتری دیکھی گئی ۔
بلوچستان میں چار دہائیوں سے زمینداروں کو دیگر صارفین کے مقابلے میں سستی بجلی مل رہی ہے۔ 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی اور بلوچستان حکومت زمینداروں کو سبسڈی کی مد میں سالانہ 23 ارب ادا کر رہی ہیں۔
زمیندار ایکشن کمیٹی کے عبدالرحمان بازئی کے مطابق سبسڈی کا موجودہ طریقہ 2015 سے رائج ہے جس کے تحت وفاقی و صوبائی حکومت زمینداروں کو 75 ہزار تک کی بجلی استعمال کرنے پر 65 ہزار روپے سبسڈی دیتی ہے بقایا دس ہزار روپے زمیندار ادا کرتے ہیں۔ 75 ہزار سے اضافی بل کی ذمہ داری زمیندار پر عائد کی گئی ہے۔
کیسکو کے مطابق زمیندار وں کے ٹیوب ویل کا ماہانہ بل اوسطاً دو سے اڑھائی لاکھ روپے بنتا ہے مگر وہ صرف 10 ہزار روپے ادا کر رہے ہیں۔کیسکو کے مئی 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق زمینداروں پر مجموعی قرضہ 500 ارب روپے سے بڑھ چکا ہے ۔ سبسڈی کی مد میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ذمے بھی 73ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔

اس طرح بلوچستان کا ہر زرعی ٹیوب ویل مالک (کسان) اوسطاً تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے کیسکو کا قرض دار ہے۔ نئے منصوبے کے بعد 570 ارب روپے سے زائد کے ان واجبات کی ادائیگی کیسے ہوگی اس سے متعلق اب تک کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ زمیندار ایکشن کمیٹی کے عبدالرحمان بازئی کا کہنا ہے کہ یہ متنازع رقم ہے جس پر یہ تنازع طویل مدت تک جاری رہ سکتا ہے۔
نیپرا کی 2022 -23 کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی ملک کی سب سے زیادہ خسارے میں چلنے والی بجلی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ کیسکو کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کی شرح زیادہ تر بجلی کمپنیوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔
کیسکو کا ماہانہ خسارہ 22 ارب روپے سے زائد ہے۔ کیسکو کی وصولیوں کی شرح صرف 37 فیصد ہے جو باقی تمام ڈسکوز کے مقابلے میں کم ہے ۔ کیسکو کو صارفین سے 650 ارب روپے سے زائد کے واجبات کی وصولی میں ناکامی کا سامناہے۔
کیسکو کے مطابق ان میں سے 570 ارب روپے کی بجلی زرعی ٹیوب ویلوں نے استعمال کی ہے تاہم وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے سبسڈی کے باوجود بلوچستان کے زرعی صارفین سے صرف 15 فیصد وصولی ہوتی ہے۔ کیسکو کے مطابق زراعت کے لیے استعمال ہونے والے یہ ٹیوب ویل صوبے کی مجموعی طلب کا 70 سے 80 فیصد بجلی کا استعمال کرتے ہیں ۔ باقی صوبوں میں زرعی مقصد کے لیے بجلی کے استعمال کی شرح صرف 10 فیصد ہے۔
اس خسارے کی وجہ سے بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں 15 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے ۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹیوب ویلز کو سولر پینلز پر منتقل کرنے اور گرڈ سٹیشن سے ہٹانے پر سب سے زیادہ فائدہ کیسکو کو ہوگا اور اس سے صوبے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں کمی کی بھی امید کی جا رہی ہے۔
بلوچستان ریونیو ایبل انرجی اسیسمنٹ کے نام سے ایک مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ڈیزل اور بجلی سے چلنے والے پانی کے پمپوں کوشمسی توانائی پر منتقل کرنے سے کیسکو پر 850 سے900 میگا واٹ تک کا بوجھ کم ہوگا۔
جبکہ ورلڈ بینک کی ایک تحقیق میں کہاگیا ہے کہ بلوچستان میں 28 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی صورت میں 2028 تک پانچ سو امریکی ڈالر (ایک کھرب 39 ارب روپے) کے سالانہ نقصانات کو کم کرکے کیسکو کو مالی طور پر مستحکم کرے گا۔ جس سے اس شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم کسانوں کی جانب سے شمسی توانائی کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے غیر قانونی استعمال جاری رہنے کی صورت میں اس منصوبے کے مالی فوائد سے متعلق خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
کیسکو کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی صورت میں بتایا کہ 28 ہزار کے لگ بھگ رجسٹرڈ ٹیوب ویلز کے علاوہ صوبے میں پندرہ سے بیس ہزار کے لگ بھگ ٹیوب ویلز غیر قانونی کنکشنز سے بجلی لے رہے ہیں۔
غیر قانونی ٹیوب ویلز کی نشاندہی کے لیے کیسکو نے نیسپاک کی مدد سے ایک سروے بھی شروع کیا ہے حکام کا کہنا ہے کہ نئے منصوبے پر عملدرآمد کے بعد انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی میں زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی کے کنکشنز منقطع اور کھمبے اکھاڑ کر ٹرانسفارمر سمیت دیگر برقی آلات بھی واپس لے لئے جائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ زمیندار گرڈ سے بجلی استعمال کو جاری نہ رکھ سکیں۔