باجوڑ ضمنی الیکشن: پی ٹی آئی کو دوسری بار شکست کیوں ہوئی؟
باجوڑ (قدرت روزنامہ)خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشست پی کے 22 باجوڑ پر ضمنی الیکشن میں صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دوسری مرتبہ شکست کا سامنا ہوا ہے۔ اس بار عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار نثار باز 11 ہزار 242 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار جو سنی اتحاد کونسل کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہے تھے چوتھے نمبر پر آئے۔
پی کے 22 باجوڑ میں انتخابات ملتوی کیوں ہوئے تھے؟
عام انتخابات کے لیے باجوڑ میں بھی انتخابی مہم زوروشور سے چل رہی تھی۔ ٹکٹ نہ ملنے پر مختلف جماعتوں کے کارکنان آزاد حیثیت سے میدان میں تھے۔ باجوڑ کے این اے 8 اور پی کے 22 سے پی ٹی آئی کے ریحان زیب نامی ورکر بھی میدان میں تھے۔ پارٹی نے دوسرے امیدوار کی حمایت کی تھی جبکہ ریحان زیب آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے تھے لیکن الیکشن سے چند روز قبل نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ریحان زیب جاں بحق ہو گئے تھے جس پر الیکشن کمیشن نے اس حلقے میں انتخابات ملتوی کردیے تھے۔
پی ٹی آئی کو پی کے 22 میں دوسری مرتبہ شکست
باجوڑ میں ضمنی الیکشن کے دوران پاکستان تحریک انصاف کو دوسری مرتبہ شکست ہوئی ہے۔ 8 فروری کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اکثریت میں کامیاب ہوئے تھے جس کے بعد صوبے میں مسلسل تیسری مرتبہ پی ٹی آئی کی حکومت بن گئی تھی۔ باجوڑ کے این اے 8 اور پی کے 22 پر پہلی بار ضمنی الیکشن کا 22 اپریل کو ہوا جس میں آزاد امیدوار مقتول ریحان زیب کے بھائی سنی اتحاد کونسل کے امیدوار مبارک زیب کو شکست دے کر دونوں حلقوں سے کامیاب ہوگئے تھے اور پی کے 22 کی نشست کو خالی کردیا تھا جس پر دوسری بار ضمنی الیکشن گزشتہ روز ہوئے اور اس میں تحریک انصاف کو دوسری بار شکست ہوئی۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار جو سنی اتحاد کونسل کے ٹکٹ پر میدان میں تھے چوتھے نمبر رہے۔
نتائج کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے نوجوان امیدوار نثار باز 11 ہزار 242 ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے ہیں، دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار سابق گورنر خیبر پختونخوا انجینیئر شوکت اللہ کے صاحبزادے نجیب اللہ جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار عابد اللہ تیسرے نمبر پر رہے۔
حکمران جماعت کی شکست کی وجہ اندرونی اختلافات یا مقبولیت میں کمی؟
باجوڑ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے نوجوان صحافی عبدالرحمان کی نظر میں عوامی نیشنل پارٹی کی کامیابی کوئی سرپرائز نہیں۔انہوں نے ضمنی الیکشن پر تجزیہ دیتے ہوئے وی نیوز کو بتایا کہ کئی وجوہات ہیں جو باجوڑ میں حکمران جماعت کی شکست کا سبب ہیں۔ ان کے مطابق انتخابات سے لے کر دونوں ضمنی الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹی اختلافات سے دوچار رہی۔
انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں بھی اسی حلقے پر ٹکٹوں کی تقسیم پر ورکرز خوش نہیں تھے جبکہ پہلی بار اپریل میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پارٹی کارکن جو آزاد حیثیت سے امیدوار تھے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے لیکن پارٹی کے امیدوار سابق ایم این اے گلداد خان کو شکست ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز دوسری بار ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوا، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار نے 3500 سے زائد ووٹ لیے کیوں کہ ورکرز اور ووٹرز پارٹی ٹکٹ پر خوش نہیں تھے جس کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوا۔
عبدالرحمان کے مطابق باجوڑ میں لوگ پی ٹی آئی کی مجموعی طور پر کارکردگی سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور میں کچھ ترقیاتی کام نہیں ہوئے اور منتخب نمائندوں نے عوامی رابطے بہتر انداز میں قائم نہیں رکھے جس کی وجہ سے ووٹرز ناراض تھے۔
باجوڑ کے سینیئر صحافی محمد بلال یاسر بھی عبد الرحمان سے کچھ حد تک اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی ضلعی قیادت میں مبینہ اختلافات کو شکست کی بڑی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہاں پی ٹی آئی والے آپس میں سلام اور ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے مل کر کام کیا کریں گے‘۔بلال یاسر نے بتایا کہ باجوڑ میں پی ٹی آئی شدید اندورنی اختلافات کا شکار ہے اور اسی وجہ سے پارٹی ووٹ بینک بھی تقسیم ہوا۔
این اے پی کی کامیابی، کیا قوم پرست جماعت کی مقبولیت بڑھ رہی ہے؟
باجوڑ میں کامیابی کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور ورکرز اپنی پارٹی کو صوبے کی مقبول جماعت قرار دے رہے ہیں جو اپوزیشن میں ہونے کے باوجود کامیاب ہو گئی لیکن صحافی عبدالرحمان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق باجوڑ میں اے این پی سے زیادہ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں زیادہ مقبول اور متحرک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے نزدیک اس بار ضمنی الیکشن میں کامیابی میں پارٹی کی نسبت شخصی ووٹ نے اہم کردار ادا کیا اور اے این پی جماعت کی نسبت امیدوار نثار باز زیادہ مقبول ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ نثار باز زمانہ طالب عملی سے ہی قبائلی علاقوں میں آپریشن، پشتونوں کے ساتھ ناانصافی اور حقوق کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں اور عوامی اجتماعات میں جذباتی تقریر کرنے کی وجہ سے عوامی حلقے میں مقبول ہیں۔ جبکہ وہ ریاست اور حکومت پر کھل کر تنقید کرتے ہیں جس نے موجودہ حالات میں ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہوگا۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ جیت گیا
بلال یاسر کے مطابق ضمنی الیکشن میں درحقیقت اے این پی کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ جیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موجود حالات میں یہ بیانیہ چل گیا اور نوجوان ووٹرز نے نثار باز کو سپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ نثار باز کے پاس الیکشن مہم کے دوران اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے علاوہ کچھ نہیں تھا بس وہ ووٹرز کو پسند آگیا۔
پی ٹی آئی مقبول جماعت ہے لیکن اندرونی اختلافات کا شکار ہے
پشاور کے سینیئیر صحافی و تجزیہ کار عارف حیات کا خیال ہے کہ سختیوں اور مشکلات کے باجود پاکستان تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین جماعت ہے اور اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے باجوڑ میں پی ٹی آئی کی مسلسل دوسری شکست کی وجہ ٹکٹوں کی جانب دارانہ تقسیم کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’پارٹی نے ٹکٹوں کی تقسیم میں مقبول ورکرز کو نظر انداز کیا جس کے نتائج باجوڑ میں سب کے سامنے ہیں‘۔
اے این پی کی جیت پر عارف حیات کا کہنا تھا کہ اے این پی کی سیاست پختونوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس لیے صوبے میں پارٹی کا ووٹ بینک ہے۔ ان کے مطابق اپوزیشن میں ہونے کے باجود کامیابی اے این پی کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ جس کا آگے جماعت کو فائدہ ہو گا۔