حکومت کو بہت تکلیف ہوتی ہے جب ہماری خواتین احتجاج کرئے . خواتین کو بلوچستان کے قبائلی رسم ورواج کے مطابق عزت،احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے . ، وزیرداخلہ نے ہدایت كي كه پولیس اور انتظامیہ احتجاج کے دوران خواتین کا خاص خیال اور احترام کرئے . ہماری جو مائیں،بہنیں اور بیٹیاں احتجاج پر ہے وہ مہذب معاشرے کی طرح ہماری سیکورٹی فورسز کے ساتھ اچھا رویہ رکھے . خواتین بھی احتجاج کے دوران سیکورٹی فورسز کے ساتھ عزت واحترام کا رشتہ برقرار رکھے . کل رات کو بھی احتجاج پر بیٹھے لوگوں سے مزاکرات کے لئے کمشنر کوئٹہ کی سربراہی میں وفد بیجھا تھا . احتجاج پر بیٹھے لوگوں کا احتجاج اسکول جاتے ہوئے بچے کی گمشدگی کے لئے نہیں ہے . وزير داخله بلوچستان كا كهنا تھا كه ظہیر زیب کالعدم تنظم کے کارندے بشیر زیب کا بھائی ہے . بشیرزیب خوشنماء نعروں کی بنیاد پرسینکڑوں لوگوں کو افغانستان لے جاچکا ہے جو سینکڑوں پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہے . ایسے شخص کی تلاش کے لئے حکومت اور اداروں کوموقع دیا جائے تاکہ اسکی گرفتاری ہوسکے . حکومت نے کل ہی فراخ دلی اور قبائلی روایت کے تحت قانون ہاتھ میں لینے والی گرفتار 5خواتین کو رہا کردیا تھا . جرم جرم ہوتا ہے چاہئے مرد کرئے یا خواتین لیکن حکومت نے اس کے باوجود خواتین کوعزت واحترام دیتے ہوئے رہا کردیا تھا . میرضیاء اللہ لانگونے مزيد كها كه جہاں احتجاج کرنا جمہوری حق ہے وہی عام عوام کو تکلیف اور مشکلات سے دوچارکرنابھی قابل مذمت عمل ہے . بلوچستان کے باشعور عوام اور خواتین سے اپیل کرتا ہوں کہ احتجاج ضرور کرئے لیکن قانون ہاتھ میں لینے اور فورسز پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی . کوئٹہ شہر میں دفعہ 144نافذ ہونے کے باجود احتجاج کرنا کھلم کھلا قانون توڑنے کے مترادف ہے . . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)وزیرداخلہ بلوچستان میرضیاء اللہ لانگو نے اپنے بيان ميں كها هے كه احتجاج کرنا مہذب معاشرے میں ہر کسی کا جمہوری کا حق ہے . حکومت کا فرض بنتا ہے کہ احتجاج پر بیھٹے لوگوں کی آواز سنے .
متعلقہ خبریں