شادی میں تاخیر کی وجہ سے خواتین کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مرد ہو یا عورت، جب تک نکاح کے بندھن میں نہ بندھ جائیں، زندگی ادھوری لگتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں معاشی و سماجی ناہمواریوں کی وجہ سے شادی میں تاخیر معمول بن گیا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں غیر شادی شدہ خواتین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے نا صرف خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ یہ ایک اہم سماجی و معاشرتی مسئلے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
ایک کروڑ سے زیادہ خواتین غیرشادی شدہ
یونیسیف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 20 سے 35 سال تک کی عمر کی ایک کروڑ سے زیادہ خواتین غیرشادی شدہ ہیں۔ ان میں 10 لاکھ کے قریب لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ جبکہ تنہا رہنے والی بیوائیں جن کی عمریں 30 سے 45 سال ہیں، وہ بھی تقریباً 60 لاکھ کی تعداد میں موجود ہیں۔
یہ وہ خواتین ہیں جن کی دوسری شادی ممکن ہے، ان کو سہارے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے معاشرے میں رشتے کے انتخاب کی بڑھتی ہوئی مانگوں نے یہاں کم عمر کنواری لڑکیوں کی شادی بھی بہت مشکل بنا دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین کی شادی میں تاخیر ہونے کی بنیادی وجہ جہیز کی لعنت ہے جبکہ غریب والدین کے لیے بیٹی کی شادی کرنا مزید مشکل ہوتا جارہا ہے۔
’غیر شادی شدہ خواتین کی زیادہ تعداد تعلیم یافتہ ہے‘
غیر سرکاری فورم ’بیداری‘ کی صدر (سیالکوٹ، پنجاب) ایڈووکیٹ حنا نورین کے مطابق غیر شادی شدہ خواتین میں تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد اس لیے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ انہیں اپنی تعلیمی قابلیت سے مطابقت رکھتا رشتہ نہیں ملتا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسے ہی مناسب رشتہ ملے بیٹیوں کو بیاہ دیں، البتہ جہاں لڑکیاں پڑھی لکھی ہوں اور والدین معاشی لحاظ سے بہتر ہوں وہ من پسند اور اپنی بیٹیوں سے مطابقت رکھنے والے رشتے کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس چکر میں لڑکیوں کی عمر نکل جاتی ہے۔
’پڑھی لکھی لڑکی کے رشتے کم آتے ہیں‘
حنا شادی شدہ ہیں اوراپنے گھر اوربچوں کی ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھاتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پڑھی لکھی لڑکیوں کے رشتے کم آتے ہیں کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ پڑھی لکھی اور ملازمت کرنے والی لڑکی گھر بار نہیں سنبھال سکتی، لہٰذا وہ کم پڑھی لکھی اور کم عمر لڑکیوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
حنا کے مطابق شادی پر خرچ ہونے والی خطیر رقم، مہر میں اضافہ، رسوم و رواج، ذات برادری میں رشتے کرنے کا رجحان، جہیز اور لوگوں کے بڑھتے ہوئے مطالبات بھی شادی میں تاخیر کی بڑی وجوہات ہیں۔
’پڑھی لکھی لڑکیاں شادی کو قید سمجھتی ہیں‘
یوتھ ڈویلمپمنٹ ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن روبینہ بھٹی نے وی نیوز کو بتایا کہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ پڑھی لکھی اور معاشی طور خودمختار خواتین شادی کو قید سمجھتی ہیں۔
روبینہ اسلام آباد کی کچی بستیوں اور چارسدہ میں خواتین کو خودمختار اور باصلاحیت بنانے کے لیے مختلف کورسسز کرواتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مرد خود سے زیادہ پڑھی لکھی لڑکی کو برداشت نہیں کرسکتے اور اس پر بے جا پابندیاں لگاتے ہیں جس کی وجہ سے پڑھی لکھی لڑکیاں شادی سے خائف ہورہی ہیں۔
وہ سمجھتی ہیں کہ لوگوں کے مطالبات اور حسین بہو کی تلاش بھی لیٹ شادی کی ایک اہم وجہ ہے، کیونکہ ہر لڑکی تو اتنی حسین و جمیل اور ہر لحاظ سے مکمل نہیں ہوسکتی ناں!
’غیر شادی خواتین پر معاشرتی دباؤ‘
نبیلہ تین بیٹیوں کی ماں ہیں۔ ان کی بڑی اور چھوٹی بیٹی کے مقابلے میں درمیان والی زیادہ خبصورت ہے۔ بیٹیوں کے رشتے آتے ہیں مگر ہر آنے والا درمیان والی بیٹی کو ہی پسند کرکے چلا جاتا ہے۔ ان کی بڑی بیٹی کی عمر اب 35 سال سے زیادہ ہوگئی ہے جو تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ ہے۔
نبیلہ درمیان والی بیٹی کی پہلے شادی کرکے بڑی بیٹی کا دل نہیں دکھانا چاہتیں، اور اسی انتظار میں ہیں کہ پہلے بڑی بیٹی کی شادی ہوجائے مگر اس انتظار میں ان کی چھوٹی بیٹیوں کی عمریں بھی نکلتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے نبیلہ کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔
نبیلہ کے لیے خاندان کی کسی تقریب میں جانا بھی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ ہر کوئی ان سے بیٹی کی شادی کے بارے سوال کرتا ہے اور ان کی بیٹیاں بھی اپنی ہم عمر شادی شدہ لڑکیوں کو دیکھ کر افسردہ ہو جاتی ہیں۔
’جیسے سارا قصور ہمارا ہی ہے‘
ثمینہ (فرضی نام) راولپنڈی کے ایک تعلیمی ادارے میں پڑھاتی ہیں۔ ان کی عمر 40 سال ہے۔ ان کی والدہ ساری زندگی ان کے لیے اچھے رشتے کی تلاش میں رہیں۔ کچھ بہتر رشتے بھی آئے لیکن من پسند رشتہ نہ ملا۔ ایک دفعہ بات طے بھی ہوئی لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے رشتہ ٹوٹ گیا۔
ثمینہ جانتی ہیں کہ اب ان کی شادی ممکن نہیں، وہ کامیاب خاتون ہیں، اپنی زندگی میں خوش ہیں، اچھا کماتی ہیں، کسی پر بوجھ بھی نہیں لیکن اکثر انہیں شادی کی عمر نکل جانے کا طعنہ ملتا ہے۔ ان کا کہنا تھا لوگ تو ایسے طعنے دیتے ہیں جیسے میری شادی نہ ہونے میں سارا قصور میرا ہی ہو، یہ دقیانوسی سوچ ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا۔
’لیٹ شادی نفسیاتی مسائل کی وجہ‘
زیادہ تر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بغیر شادی کے خواتین محفوظ نہیں ہوتیں۔ والدین اور رشتہ داروں کے لیے یہ اہم نہیں کہ آپ کتنے کامیاب اور مطمئن ہیں، وہ بار بار سوال کرتے ہیں اور آخر کار خواتین بھی احساس محرومی کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ معاشرتی رویے، پریشانیاں، اکیلا پن، جسمانی ضرورتیں، والدین کی پریشانی اور لوگوں کے لڑکیوں کو جانچنے کے پیمانے غیر شادی شدہ لڑکیوں کی زندگی مشکل بنا دیتے ہیں۔
اس موضوع پر جب ماہر نفسیات صوفیہ سہیل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایسی بہت سی خواتین آتی ہیں جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہیں اور اکیلے پن کی وجہ سے ان کی نفسیاتی الجھنیں بڑھ جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکے بہت زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور وہ وہاں پر خوبصورت اور ماڈرن لڑکیوں کو دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی بھی ویسی ہی ہو، جس کے لیے ان کی مائیں اپنے بیٹوں کی پسند اور چاند چہرہ بہو کی تلاش میں کئی لڑکیوں کے گھروں کے چکر لگاتی ہیں اور ان کے جذبات سے کھیلتی ہیں۔ وہاں اخلاق و کردار کی خوبصورتی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔
صوفیہ کہتی ہیں کہ ان تمام وجوہات کہ وجہ سے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کو زندگی کا ساتھی نہیں ملتا، ان کے جذبات دب جاتے ہیں، وہ اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہیں، احساس کمتری اور احساس تنہائی میں رہتی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ وہ خوبصورت نہیں ہیں، انہیں غصہ بھی بہت آتا ہے، انھیں ’پینک اٹیکس‘ بھی آتے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ ڈپریشن اور اینگزائٹی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔
ان کے خیال میں ڈپریشن جیسا مرض انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ سونے، جاگنے، کھانے، پینے اور سوچنے کی صلاحیت سے لے کر جسمانی صحت تک سب کچھ متاثر ہوتا ہے اور اس مرض میں خواتین زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔
چار شادیوں کی اجازت کے باوجود ایک شادی ہی رائج کیوں؟
پاکستان سمیت دیگراسلامی ممالک میں بھی 4 شادیوں کی اجازت ہونے کے باوجود ایک شادی کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے خواتین کی بڑی تعداد، جو کہ مردوں کے مقابلے میں ویسے بھی زیادہ ہے، شادی کے بندھن میں بندھنے سے محروم رہ جاتی ہے۔
خانگی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ غیر شادی شدہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں شرعی اجازت کے مطابق مرد کی ایک سے زیادہ شادیوں کو رواج دینے سے صورتحال بہتر ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔