بڑے بڑوں کی گرفتاری کی تیاری۔۔ وفاقی وزرا ، میڈیا مالکان سمیت 7سوپاکستانیوں کے خلاف بڑے ایکشن کی تیاری ، پوری قوم کیلئے بری خبر آگئی

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) پینڈورا پیپرز میں شامل 700 پاکستانیوں کے خلاف باضابطہ تحقیقات شروع کردی گئیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پینڈورا پیپرز تحقیقات کو 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، جس کے تحت موجودہ یا سابق پبلک آفس ہولڈرز اور دیگر کاروباری شخصیات کے خلاف الگ الگ تحقیقات ہوں گی ، اس مقصد کے لیے ملک بھر کے ریونیو ڈیپارٹمنٹ اور نادرا سے مدد لی جائے گی ، تحقیقات کی روشنی میں رپورٹس ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر کو فراہم کی جائیں گی تاکہ پاکستانی قوانین کے تحت قانونی کاروائی ہوسکے۔معلوم ہوا ہے کہ تحقیقات کے پہلے مرحلے میں پینڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے تمام پاکستانیوں کے ملک میں کاروبار، بینک اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی تفصیلات جمع کی جارہی ہیں ،

ان افراد کے روزانہ کے اخراجات ، بچوں کی تعلیم اور شادیوں سمیت دیگر تفصیلات بھی اکھٹی کی جائیں گی ، بتایا گیا ہے کہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں کے بیرون ممالک دوروں، علاج معالجہ، شاپنگ اور فضائی سفر کے دوران کیے گے دیگر اخراجات کی تفصیلات بھی اکھٹی کی جارہی ہیں، ان کے سرکاری و نجی بینکوں کے اکاؤنٹس، موبائل نمبرز کا ڈیٹا، ان کے ٹریول ایجنٹس اور پرائیوٹ ہوٹلز کی بکنگ کی تفصیلات بھی اکھٹی کی جائیں گی۔خیال رہے کہ عالمی تحقیقاتی آئی سی آئی جے نے ایک بار پھر ٹیکس چھپانے کے لیے بنائی جانے والی کمپنیز اور مالکان کے نام ‏کی تفصیلات جاری کردیں ، مالی امور کی تحقیقات دو سال میں مکمل کی گئی، جس میں 117 ممالک کے 150 ‏میڈیا اداروں کے 600 صحافیوں نے تحقیقات کیں ، پینڈورا پیپرز میں 700سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، اِن پاکستانیوں میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیٹے کی آف شور کمپنی بھی شامل ہے ،تحقیقات میں پنجاب کے سابق وزیر عبدالعلیم خان کی آف شور کمپنی سامنے آئی ، پنڈورا پیپرز میں پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن کی آف شور کمپنی بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ وفاقی وزیرصنعت خسرو بختیارکے اہل خانہ کی آف شورکمپنی بھی پنڈورا پیپرزمیں سامنے آئی ہے ، وزیراعظم کےسابق معاون خصوصی وقارمسعود کے بیٹے کی بھی آف شورکمپنی نکل آئی جبکہ ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کی آف شور کمپنی بھی پنڈورا پیپرزمیں شامل ہے ، اسی طرح پنڈورا پیپرزمیں کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران،کچھ بینکاروں، کاروباری شخصیات اور کچھ میڈیا مالکان کی آف شورکمپنیاں بھی سامنے آئیں ہیں۔