سیاسی پارٹیوں کے نام پر ایسے گروہ ایجاد کیے گئے جو مادر وطن کو بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں، حاجی لشکری


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان پیس فورم کے چیئرمین سنیئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا ہے کہ میری کمٹمنٹ اور رشتہ اس مٹی سے ہے ،اصولوں کے تابع ،آئندہ نسلوں کو جوابدہ ہوں ،بلوچستان کے آئندہ نسلوں کے وقار اور عزت کیلئے جدوجہد سے کوئی نہیں روک سکتا ،یہ ہمارا وطن ہے اور وطن کا دفاع کیا جاتا ہے، یہاں سیاسی پارٹیوں کے نام پر ایسے گروہوں کو ایجاد کیا گیا جو مادر وطن کو بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں،ہم نے صحیح اور غلط کے درمیان لکیر کھنچی ہے، ہماری کوشش ہے شعوری جدوجہد کے ذریعے اپنی سرزمین کو بحرانوں سے نکال کر آئندہ نسلوں کے حوالے کریں۔ یہ بات انہوں نے ہفتہ کو بلوچستان پیس فورم کے زیراہتمام بلوچستان کی بدحالی اور سیاسی جماعتوں کا کردار کے عنوان سے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی ، سیمینار سے سینئر صحافی انورساجدی ، کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند ، پشتونخوانیپ کے صوبائی صدر سابق رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے ، سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد ، عمر جان بلوچ ، کوئٹہ بار کے سابق جنرل سیکرٹری چنگیز حئی بلوچ ، سینئر صحافی رضا الرحمن ، طور آغا ، روزینہ خلجی ، اطہر ہزارہ ، چوہدری زبیر، وحید زہیر اور شعیب رئیسانی نے بھی خطاب کیا،نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے سیمینار کے شرکاءکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایک شعوری مذاکرے میں گھنٹوں لوگوں کی شرکت اپنے آئندہ مستقبل سے سنجیدگی کی غمازی کرتا ہے،انہوں نے بنوں میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ بنوں میں پرامن سیاسی آواز کو دبانے کیلئے ایسے واقعات رونما ہوئے ، انہوں نے کہا کہ 2008ئ میں جب صوبے میں نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی سربراہی میں حکومت قائم ہوئی تو نواب محمدا سلم خان رئیسانی نے ریکودک کا دفاع کیا ، گوادر میں لاکھوں ایکڑ ارضی کی الاٹمنٹ منسوخ ، گوادر کو بلوچستان کا سرمائی دارالحکومت قرار دیا جس کے بعد بلوچستان امن و امان کا مصنوعی مسئلہ پیدا کیا اور اس مسئلے کو بڑھاوا دیا گیا آج جب بنوں میں یہ سب کچھ ہوا تو 2008 سے 2012 ئ تک واقعات میرے سامنے آئے، انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا وطن ہے جس کا دفاع کیا جاتا ہے مگر یہاں سیاسی پارٹیوں کے نام پر ایسے گروہوں کو ایجاد کیا گیا جو مادر وطن کو بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں، انہوںنے کہاکہ ریکودک میرا ذاتی نہیں اس صوبے کی ملکیت ہے اس کو بچانے کیلئے ہم نے اپنے خاندان توڑا ہماری کمٹمنٹ اور رشتہ اس مٹی سے ہے اور ہماری قیمت یہ مٹی ہے ہمیں ان سیاسی جماعتوں سے شکوہ ہے جنہوں نے مصنوعی امن وامان کے مسئلہ کو اور خون روزی کو روکنے کی کوشش نہیں کی صوبے میں راتوں رات آزمائے لوگوں کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کیا گیا ،تمام پارٹیاں صوبے میں لوٹ مار میں برابر کی شریک ہیں ، 2013 کے انتخابات کے بعد جب کچھ لوگ اقتدار میں آئے اس کے عوض ان میں سے کوئی سرمائی دارالحکومت سے دستبرار ہوا کوئی ڈیورنڈ لائن کے جذباتی نعرہ سے دستبردار ہوا کسی نے ڈی ایچ اے ایکٹ بناکر صوبے کے مستقبل کو کسی اور کے حوالے کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں 2018 کے انتخابات کا کیس آج بھی اس لیے لڑرہا ہوں تاکہ نظام کو آئینہ دکھا¶ں ، 2018ئ کے انتخابات کے نتیجے میں جو لوگ اسمبلی تک پہنچنے انہوں نے رات کی تاریکی میں ایک اجلاس بلایا جس میں تمام سیاسی جماعتیں شریک ہوئیں جس میں ریکودک کا سودا کیا گیا صرف نواب اسلم رئیسانی بحیثیت رکن اسمبلی اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے نہ ہمارا ساحل رہا نہ وسائل رہا نہ اختیار رہا نہ امن وامان رہا،2024ء کے انتخابات میں ایک مذہبی جماعت نے حکومت سازی کا بائیکاٹ کیا لیکن سینیٹ میں اتحاد کیا اور جن کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کا دروازہ کھلاتھاان کیلئے جمعیت علما اسلام اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنے دروازے بھی کھلے ، انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کے ارکان کی تعداد کم ہونے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن سینیٹ میں تمام قومی اکائیوں کی نمائندگی یکساں ہے مگر وہاں بھی باہر کے لوگوں کو صوبے پر مسلط کیا گیا کیا بلوچستان سیاسی یتمیوں کا مرکز ہے جس کو جہاں سے چاہے لاکر مسلط کیا جائے ، جو آج اپوزیشن کا دعویٰ کررہے ہیں ایک نظر بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات پر دوڑائی جائے کہ اس میں ان کا کردار کیا رہا، سیاسی جماعتیں لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے ایک معمولی واقعہ پر چیخ پڑتی ہیں مگر وسائل کی لوٹ مار پر کبھی بات نہیں کرتی ہیں ، تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتے ہیں وہ آئیں ایک آل پارٹیز کانفرنس میں یہ طے کریں جو سیاسی جماعتیں اسٹلیمشنٹ کی ہمنوا بنیں گی ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں پارٹیاں چھوڑتا ہوں تو میں کہتا ہوں جو پارٹی اپنا موقف تبدیل کرتی ہے وہ میری پارٹی نہیں رہتی ، سیاسی پارٹیوں کے دروازے حقیقی قیادت کیلئے بند اور غیر سیاسی لوگوں کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کے دروازے کھلے ہیں، میں انتخابات میں ہار جاتا ہوں اور وہ شخص جو بیسیوں بار میرے پاس چل کر آیا وہ جیت جاتا ہے