ایس ایچ آرسی پی کے بلوچستان میں نمائندے حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ کوئلہ کان مالکان سے سکیورٹی کے نام پر ریاست بھی پیسہ لے رہی ہے اور پہاڑوں پر بیٹھے لوگ بھی ان سے اپنا شیئر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود کان مالکان اور نہ ہی کان کنوں کو تحفظ حاصل ہے . رواں سال مارچ میں دکی سے نامعلوم افراد نے سات کان کنوں کو اغوا کیا جنہیں 38 دنوں بعد مئی میں رہا کیا گیا . گزشتہ برس جون میں دو مختلف واقعات میں زیارت اور ہرنائی میں کوئلے سے بھرے تقریبا 50 ٹرکوں کو فائرنگ کر کے اور آگ لگا کر نقصان پہنچایا گیا تھا . ان واقعات کے خلاف ٹرانسپورٹروں نے جون اور اکتوبر میں احتجاجا دو مرتبہ کوئلہ کی سپلائی روک دی تھی . خطرات میں اضافوں اور مسلسل حملوں کے باعث کوئلے کے شعبے سے وابستہ مزدور، ٹرک ڈرائیور، ٹھیکے دار اور مالکان خوف کا شکار ہیں اور ان کا روزگار اور کاروبار بھی متاثر ہے . ایک متاثرہ ٹرک ڈرائیور نے بتایا کہ نقاب پوش حملہ آوروں نے ٹرک ڈرائیوروں اور عملے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور دھمکی دی کہ اگر آئندہ ٹرکوں میں کوئلہ لے کر گئے تو ڈرائیوروں اور عملے کو بھی نہیں بخشا جائے گا . اس کی وجہ سے سب ٹرک ڈرائیور خوفزدہ ہیں . . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی بلوچستان کی کوئلہ کانوں سے متعلق نومبر 2022 کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں کوئلے کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کو دوہرے خطرات درپیش ہیں . وہ نہ صرف صحت و حفاظت کے انتظامات نہ ہونے کے باعث حادثات کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ مذہبی اور قوم پرست عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اغوا اور قتل بھی کیے جا رہے ہیں .
متعلقہ خبریں