سوشل میڈیا بندش سے لاکھوں پاکستانیوں کا روزگار خطرے میں


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ملک بھر میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس کے بعد گزشتہ چند روز سے فیس بک اور انسٹاگرام بھی جزوی طور پر بند ہیں۔
حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ 6 سے 11 محرم الحرام تک سوشل میڈیا پلیٹ فارم جزوی طور پر بند رہیں گے تاہم ملک میں اب تک فیس بک، انسٹاگرام اور یہاں تک کہ واٹس ایپ کی سروسز بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہو پائیں۔
واضح رہے کہ ملک میں انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والے سب سے بڑے پرائیوٹ ادارے ’نیا ٹل‘ کی جانب سے ایک پیغام شیئر کیا گیا جس میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) سے سروسز میں رخنے کی وجہ پوچھی گئی اور ساتھ میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ یہ پابندی کب تک ختم ہو گی۔
آج کے اس ڈیجیٹل دور میں تمام چھوٹے بڑے کاروبار براہ راست سوشل میڈیا سے منسلک ہیں۔ خاص طور پر چھوٹے برانڈز جن کا وجود صرف سوشل میڈیا تک محدود ہے اور وہ فری لانسرز جو بیرونی ممالک کے لیے اپنی سروسز مہیا کرتے ہیں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
کراچی انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی آے) کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر نے وی نیوز کو بتایا کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ بندش کے ہماری معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر نے کہا کہ جب پاکستان میں آئے روز انٹرنیٹ کے مسائل ہوتے ہیں تو بیرونی ممالک کے لیے کام کرنے والے اور ہماری معیشت میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والے فری لانسرز کے لیے سب سے زیادہ مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ فری لانسرز ہر چند ہفتوں کے بعد یہ بتائیں گے کہ آج ہمارا انٹرنیٹ ڈاؤن ہے یا ہمارے ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی عائد ہے تو اس سے پاکستان کا دوسرے ممالک پر بہت برا تاثر پڑے گا اور اس کے علاوہ آزادی اظہار رائے پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک پاکستانیوں کو سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیں گے اور ہمارے مقابلے میں بھارت کو زیادہ ترجیح دیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر نے کہا کہ شاید حکومت کو ابھی اس کے اثرات محسوس نہیں ہو رہے کیونکہ ابھی لوگ اپنی ذات تک مسائل برداشت کر رہے ہیں لیکن اگر آئی ٹی سے منسلک افراد سے پوچھا جائے تو ان کے لیے پہلے کی نسبت پروجیکٹ حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ ابھی یہ انفرادی پیمانے پر ہے تو کوئی اس کے بارے میں نہیں سوچ رہا لیکن کچھ عرصے میں اس کے بڑے پیمانے پر اثرات آنا شروع ہو جائیں گے اور وہ تباہ کن ہونگے لیکن اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔
چیئرمین اکنامکس ڈیپارٹمنٹ آئی بی اے نے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ اس بندش سے پاکستان کے لوکل کاروبار بھی بیحد متاثر ہورہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے اقدامات سے کسی بھی ملک کے معاشی حالات نہیں بدل سکتے۔
پاکستان ڈیجیٹیل رائٹس فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر نگہت داد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کی بندش کا اثر بہت سے شعبوں کو متاثر کرتا ہے اور اس سے سوشل میڈیا پر انحصار کرنے والے کاروباری افراد و کمپنیاں اور مارکیٹینگ سے منسلک افراد زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔
نگہت داد نے کہا کہ سوشل میڈیا کی اس بندش کے باعث سنہ 2023 میں تقریبا 125 ملین شہری متاثر ہوئے تھے۔
ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں سنہ 2023 میں ای کامرس کی آمدنی 4 ہزار 684 ملین امریکی ڈالر رہی جس کے سال 2024 میں 4 ہزار 892 ملین امریکی ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس کی متوقع سالانہ شرح نمو 5.85 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ سنہ 2023 میں سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے پیدا ہونے والی آمدنی 11.32 ملین امریکی ڈالر رہی ہے اور توقع ہے کہ یہ سال 2024 میں بڑھکر 14.74 ملین امریکی ڈالر تک ہوجائے گی۔
صائمہ رضوان کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ ایک ہوم شیف ہیں اور انہیں یہ کاروبار کرتے ہوئے تقریباً 5 برس ہوچکے ہیں۔
انہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے کاروبار کو مزید بڑھنے میں انسٹاگرام نے سب سے زیادہ مدد کی ہے اور وہ روز کا مینیو انسٹاگرام اسٹوری پر لگاتی ہیں جہاں کسٹمرز کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور وہیں سے سب سے زیادہ آرڈرز موصول ہوتے ہیں لیکن جب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بندش ہوگی تو کون کاروبار کر سکے گا۔
صائمہ رضوان نے کہا کہ مجھے روزانہ تقریباً 30 آرڈرز ملتے تھے لیکن گزشتہ چند دنوں سے یہ کم ہوکر 8 سے 10 تک رہ گئے ہیں اور یہ وہ ہیں جو میرے واٹس ایپ پر ایڈ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وہ یہ سوچ رہی ہیں واٹس ایپ کا بزنس اکاؤنٹ بنا کر تمام لوگوں کو وہاں ایڈ کر لیں ورنہ نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔
محمد طلحہ یوسف سوشل میڈیا مینیجر ہیں۔ انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمنی کی ایک کمپنی کے سوشل میڈیا پیجز کو مینیج کرتے ہیں مگر پاکستان میں آئے روز کبھی انٹرنیٹ اور کبھی سوشل میڈیا کی بندش کے باعث کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بیرونی ممالک کے لوگ پروفیشنلی بہت زیادہ سخت ہوتے ہیں اور اگر پاکستان میں اس طرح کے مسائل چلتے رہے تو پاکستانیوں کو پروجیکٹس ملنے بند ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان آئی ٹی سروسز فراہم کرنے والا سب سے سستا ملک ہے اور پاکستانیوں کو بہت زیادہ سراہا بھی جاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ کچھ عرصے بعد پاکستانی اس موقعے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
محمد طلحہ نے کہا کہ میں اس کمپنی کی سوشل میڈیا مارکیٹینگ اور ٹارگٹ آڈیئنس کے مطابق کانٹینٹ بناتا ہوں اور اب مجھے کمپنی کے سوشل میڈیا پر کچھ پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کرنی ہے لیکن پاکستان میں ایکس کے بعد اب انسٹاگرام اور فیس بک بندش کی وجہ سے میں یہ نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ سال کے 10 مہینے پاکستان میں انٹرنیٹ اور کبھی سوشل میڈیا پر بندش لگی رہتی ہے اور اب سمجھ نہیں آتا کہ ہم ان کو کیا جواب دیں کیونکہ روز ایک جیسا جواب دینا شرمندگی کا باعث ہے۔
محمد طلحہ نے کہا کہ یہ صورتحال اگر جاری رہی تو پھر انہیں کام ملنا بند ہوجائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے حکومت کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ان کے لیے پاکستان میں جینا مشکل ہو جائے گا۔