اس سلسلے میں ملک اور صوبے کے صنعتکار سراپا احتجاج ہے، ان کا کہنا تھا کہ40 کے قریب خاندانوں کے آئی پی پیز ہیں، جن کے لئے 24 کروڑ عوام کا خون چوسا جا رہا ہے . انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال بھی آئی پی پیز والوں کو بجلی خریدے بغیر اربوں روپے ادائیگی کی گئی،انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ٹرانسمیشن لائنوں میں یہ سکت ہی نہیں کہ وہ نیشنل گریڈ سے ہیوی پروڈکشن کو برداشت کر سکے ہم سمجھتے ہے کہ بغیر سوچے سمجھے آئی پی پیز لگا دئے گئے مگر ٹرانسمیشن لائنوں کی حالت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی یہی صورتحال ملک کے دیگر اکائیوں میں بھی ہے جس کی وجہ سے آئی پی پیز کو اربوں روپے زائد ادائیگی ہو رہی ہے . انہوں نے آئی پی پیز کے غیر جانبدار آڈیٹر کے ذریعے احتسابی آڈٹ کا مطالبہ کیا انہوں نے بجلی کے بڑے تجارتی،گھریلو اور صنعتی اور چیمبرز کے نمائندوں کو نیپرا اتھارٹی میں صوبوں کی طرز پر نمائندگی دینے کا بھی مطالبہ کیا تاکہ بجلی کی قیمتوں ودیگر امور بارے فیصلہ سازی میں وہ حصہ لے سکے انہوں نے آئی پی پیز معاہدوں کی فوری تنسیخ اور بجلی کی قیمتوں پر نظر ثانی کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلوں سے صارفین میں بداعتمادی اور اضطراب جنم لیتے ہیں . . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ بلوچستان کے صدر حاجی عبداللہ اچکزئی، سینئر نائب صدر حاجی آغاگل خلجی اور نائب صدر سید عبدالاحد آغا نے آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں کو صنعت کاری کے شعبے کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے ان کی منسوخی اور بجلی کی قیمتوں کا ازسرنو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے . گزشتہ روز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کوئٹہ بلوچستان میں بزنس کمیونٹی کے مختلف وفود سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں اور بجلی بلوں میں مختلف چارجز کی شمولیت سے ملک بھر کے صنعتکاروں کو معاشی بدحالی کا سامنا ہے بلکہ صنعتیں بند ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے .
متعلقہ خبریں