آئی پی پیز کو ادا کی جانے والی رقم پاکستان کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ کیسے ہوئی؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)پاکستان میں بجلی کے بحران کیساتھ بجلی کے بلوں کی اوورچارجنگ کا طوفان آیا ہوا۔ ایک عام صارف کو ہزارہا روپے کے بلوں نے پریشان کردیا ہے۔ ایسے میں ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بجلی کے معاملے میں اتنے زیادہ ٹیکسز عائد کر دیے گئے ہیں۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے کارخانے
اس وقت پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے 100 سے زائد پلانٹس موجود ہیں۔جنہیں ویسے تو آئی پی پیز یعنی انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کہا جاتا ہے، تاہم اس میں کئی سرکاری پاور پروڈیوسرز پپلانٹس بھی ہیں۔
عجیب معاہدہ اور کیپسٹی پیمنٹس
آئی پی پیز سے معاہدے کے وقت حکومت نے یہ شق شامل کی کہ بجلی پیدا کرنے والے ان پلانٹس کو ان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے پر بھی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ چاہے بجلی ان پلانٹس سے حاصل کی جائے یا نہیں۔ اسے ’کپیسیٹی پیمنٹس‘ کہا جاتا ہے اور صارفین کو دیے جانے والے بلز میں اس وقت اس کی شرح 70 فی صد تک بلند ہو چکی ہے۔
2 ہزار 635 ارب روپے کا سرکلر ڈیبٹ
اس وقت صرف بجلی کے شعبے میں 2 ہزار 635 ارب روپے کا سرکلر ڈیبٹ ہو چکا ہے اور اس میں ماہانہ اضافہ 66 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ رقم پاکستان کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے جو رواں مالی سال کے لیے 2 ہزار 120 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
آدھے کارخانوں کی 10 فی صد سے بھی کم پیداوار، مگر کیپیسٹی پیمنٹ پوری
سابق نگراں وفاقی وزیر اور تاجر گوہر اعجاز نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں موجود بجلی کے کارخانے محض 40 خاندانوں کی ملکیت ہیں۔
گوہراعجاز کے بقول مجموعی آئی پی پیز میں سے آدھے یعنی 53 آئی پی پیز ایسے ہیں جو 10 فی صد سے بھی کم بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ جب کہ ان میں سے بھی 25 بجلی کے کارخانے صفر پیداوار دے رہے ہیں۔ لیکن انہیں پوری کیپیسٹی پیمنٹ کی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق ایک بجلی گھر سستی بجلی دے رہا ہے تو دوسرا بجلی گھر اس کے مقابلے میں 4گنا مہنگی بجلی بنا رہا ہے۔
50 ارب روپے مالیت سے قائم کیے گئے اور وہ 400 ارب روپے کما چکے ہیں
گوہراعجاز کے مطابق بعض پلانٹس 50 ارب روپے مالیت سے قائم کیے گئے اور وہ 400 ارب روپے کما چکے ہیں اور اب جب کہ وہ ناکارہ ہو چکے ہیں تب بھی انہیں 3، 3 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔
45 فی صد خود حکومت کے چلنے والے آئی پی پیز ہیں
گوہر اعجاز کے مطابق ملک میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر اوسطاً 25 فی صد سے بھی کم صلاحیت پر چل رہے ہیں۔ لیکن انہیں 692 ارب روپے کے کیپیسٹی چارجز ادا کیے گئے۔
اسی طرح ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو 50 فی صد استعداد کے باوجود 175 ارب اور آر ایل این جی پر چلنے والے پلانٹس کو 180 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کیے گئے جو محض 50 فی صد استعداد کار پر چلائے جا رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 45 فی صد خود حکومت کے چلنے والے آئی پی پیز ہیں۔ 40 فی صد کارخانے سی پیک منصوبے کے تحت لگائے گئے ہیں جب کہ 15 فی صد نجی شعبے کے پاس ہیں۔
صارفین پر پوجھ
ماہر معیشت کے مطابق کیپیسٹی پیمنٹ سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ بجلی کے بلز میں بڑے پیمانے پر ٹیکسز ہیں جو بلوں کا 40 سے 45 فی صد بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ گردشی قرضوں کا حصہ، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز، چوری، ڈسکوز کے نقصانات، سبھی اس کے علاوہ ہیں۔ اور ان سب کو صارفین کے بجلی کے بلوں میں وصول کیا جاتا ہے۔