انہوں نے کہاکہ ہم پرامن قومی اجتماع کے خلاف گزشتہ 48 گھنٹوں میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے صرف چند ایک کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں . جس میں گوادر اور مکران کے بیشتر علاقوں میں گزشتہ 48 گھنٹوں سے انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہے جب کہ کل شام سے فون نیٹ ورک بند ہیں . گوادر اور قریبی علاقوں میں مکمل غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے . کسی کو گوادر میں داخل ہونے یا جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی . بلوچ قومی اجتماع کا قافلہ ہزاروں افراد سمیت کل صبح کوئٹہ سے روانہ ہوا . کوئٹہ سے نکلنے کے فوراً بعد انہیں روک دیا گیا . اپنی زیادہ تعداد کی وجہ سے وہ ان متعدد رکاوٹوں کو عبور کر کے مستونگ پہنچے . مستونگ میں پرامن کاروان پر براہ راست فائرنگ کی جس میں سینکڑوں خواتین اور بچے شامل تھے . اس کی وجہ سے 14 شرکا زخمی ہوئے جن میں سے 3 شدید زخمی ہیں اور اب کوئٹہ ٹراما سینٹر میں زیر علاج ہیں . اس کے بعد قافلے کی تمام گاڑیوں کے ٹائر پھاڑے، انہیں بیکار بنا دیا اور براہ راست آگ لگا کر کھڑکیوں کو توڑ دیا گیا . بلوچ قومی اجتماع کا ارادہ کارواں اس وقت مستونگ میں پرامن دھرنا دے رہا ہے . مزید برآں تلار گوادر سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچ قومی اجتماع کے لیے مکران کے علاقے میں پہنچنے والے تمام قافلوں کو گزشتہ 48 گھنٹوں سے تلار چوکی پر روک دیا گیا ہے . کل شام تک، جب گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں فون نیٹ ورک ابھی تک کام کر رہے تھے، مقامی صحافیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں نے اطلاع دی کہ براہ راست فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی ہے . بلوچ قومی اجتماع میں ہزاروں شرکا کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے . انہوں کہاہے کہ کراچی اور حب سے قافلہ کل صبح بلوچ قومی اجتماع میں شرکت کے لیے روانہ ہوا لیکن انہیں کراچی کے یوسف گوٹھ بس ٹرمینل اور حب میں باوانی پر روک دیا گیا . 12 سے 14 گھنٹے تک روکے رہنے کے بعد، انہیں آگے بڑھنے کی اجازت دی گئی لیکن 200 کلومیٹر بعد بززی ٹاپ ہنگول میں انہیں دوبارہ روک دیا گیا، جہاں ان کی گاڑی کے ٹائر پھٹ گئے، اور انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی . اس قافلے میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو کل رات سے بغیر کھانے اور پانی کے آسمان تلے ہنگول میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں . فوری اپیل میں کہا گیا ہے کہ بلوچ قومی اجتماع کو سبوتاژ کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی اجتماع کی تیاری کرنے والے پرامن کارکنوں پر چھاپے مارے گئے . کراچی سے پانچ اور کوئٹہ سے متعدد افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پرامن کارکنوں کے خلاف کئی جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئیں . آج کی صورتحال کے حوالے سے تنظیم نے کہا آج 28 جولائی کو بلوچ قومی اجتماع روکنے کیلئے ظلم و جبر کیخلاف بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں مکمل شٹر ڈاﺅن ہڑتال جاری ہے، اس کے علاوہ کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے، مستونگ میں کوئٹہ کراچی ہائی وے اور ہنگول میں کوسٹل ہائی وے پر دھرنے جاری ہیں . عالمی میڈیا اور تنظیموں کو جاری کردہ بیان میں بی وائے سی نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس آج گوادر میں ہونے والے قومی اجتماع کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں، تاہم بلوچستان کے دیگر علاقوں سے قافلے گزشتہ رات پنجگور پہنچے اور گوادر کے لیے روانہ ہوئے، جن میں سینکڑوں گاڑیاں شامل تھیں ابتک اپنے مقام تک نہیں پہنچے، انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے، ہم ان سے بھی کوئی اپ ڈیٹ حاصل کرنے سے قاصر ہیں . میڈیا بلیک آﺅٹ کے حوالے سے تنظیم نے کہا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں سے پورا بلوچستان جنگ زدہ بنا ہوا ہے، لیکن یہ انتہائی افسوسناک اور صحافتی برادری کے لیے باعث شرم ہے کہ پاکستانی مین اسٹریم میڈیا اور صحافیوں میں سے کسی نے بھی اس بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن پاکستان سمیت انٹرنیشنل میڈیا سے منسلک تمام صحافی اور میڈیا ہاﺅسز مجرمانہ طور پر خاموش ہیں . انہوں نے آخر میں کہا ہم عالمی سطح پر تمام میڈیا ہاﺅسز اور صحافیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ صحافتی اقدار اور اصولوں کا احترام کرتے ہوئے بلوچستان میں جنگ جیسی صورتحال، گوادر میں مکمل کرفیو اور ظلم و جبر کی کوریج فراہم کریں . . .
گوادر(قدرت روزنامہ)بلوچ یکجہتی کمیٹی نے عالمی میڈیا ہاﺅسز اور صحافیوں کو فوری اپیل ارسال کرتے ہوے کہا کہ بلوچستان اب مکمل طور پر جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے . بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کا اعلان کیا ہے لیکن پرامن عوامی اجتماع کو روکنے کے لیے تمام تر مشینری اور طاقت استعمال کرکے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے .
متعلقہ خبریں