قافلوں کو آنے کی اجازت، گرفتار شرکا کو رہا کیا جائے، مذاکرات صرف گوادر میں ہوں گے، ورنہ دھرنا جاری رہے گا، بی وائے سی
اس وقت گوادر میں کرفیو کے باوجودہزاروں لوگ بلوچ راجی مچی میں موجود ہیں جبکہ ہزاروں لوگوں کو تلار چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے جو وہاں دھرنے کی صورت میں بیٹھے ہوئے ہیں . ریاست نے گزشتہ 48 گھنٹوں سے گوادر سمیت پورے بلوچستان میں قیامت برپا کی ہوئی ہے، نہتے عوام پر اندھا دھند فائرنگ، تشدد اور گرفتاریوں نے بلوچستان کو ایک مکمل جنگ زدہ خطے میں تبدیل کر دیا ہے . گوادر میں گزشتہ 48 گھنٹوں سے انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک مکمل بند ہیں اور مکمل کرفیو نافذ ہے . آج گوادر میں ایک طرف ریاستی جبر تو دوسری طرف نہتے اور پرامن عوام کا سمندر تھا، انتظامیہ اور حکومت نے لیویز اور پولیس کو عام عوام پر اندھا دھند فائرنگ اور ہر بندے کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم نامہ جاری کیا لیکن لیویز اور پولیس نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا . اس کے بعد براہ راست عوام پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے ایک شخص موقع پر ہی جاں بحق جبکہ سات افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے دو کی حالت خطرے میں ہے . سربندر سے آنے والے قافلے پر بھی اندھا دھند فائرنگ کی لیکن خوش قسمتی سے سربندر کا قافلہ محفوظ رہا . ہم بلوچ عوام کے حوصلے، ہمت اور بہادری کو داد دیتے ہیں کہ وہ ریاست کے بدترین جبر کے سامنے ڈٹے رہیں اور ہزاروں کی تعداد میں عوام نے بلوچ راجی مچی میں شرکت کرکے ریاستی جبر کو مٹی تلے روند دیا اور ثابت کر دیا کہ عوام ہی واحد طاقت اور قوت ہیں اور عوامی طاقت کے سامنے دنیا کی کوئی بھی طاقت کھڑی نہیں ہوسکتی . آج بلوچ عوام نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کے اثرات کم از کم آنے والے سو سال تک ہمارے سماج پر رہیں گے . ہم بلوچ عوام سمیت دنیا بھر کے مظلوم عوام کو پیغام دیتے ہیں کہ بلوچ راجی مچی پدی زِر گوادر میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں دھرنے کی صورت میں جاری ہے . خدشہ ہے کہ رات کے وقت پھر دوبارہ راجی مچی کے شرکا پر اندھا دھند فائرنگ اور تشدد کیا جائے . بلوچ راجی مچی دھرنے کے اس وقت دو مطالبات ہیں . ایک جہاں جہاں ہمارے قافلوں کو زبردستی روکا گیا ہے، تمام راستوں کو کھول کر ہمارے قافلوں کو گوادر آنے دیا جائے . دوسرا ہمارے جتنے بھی لوگ گرفتار کیے گئے ہیں انہیں 48 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے وگرنہ یہ دھرنا غیر معینہ مدت کے لیے جاری رہے گا اور ہم ان مطالبات پر ریاست کے ساتھ پدی زِر گوادر کے مقام پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں . اگر ریاست نے اب بھی عقل اور ہوش سے کام لینے کے بجائے پرامن عوامی اجتماع کے مقابلے میں طاقت کا استعمال کیا تو گوادر سمیت پورے بلوچستان میں حالات ریاست کے کنٹرول سے مکمل طور پر نکل جائیں گے . بلوچ عوام پرامن ہیں، اسی طرح آگے بھی پرامن رہیں اور اس کے ساتھ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی کال کا انتظار کریں . بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکز گوادر سے بہت جلد اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی . . .